خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۗ أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ
اس نے زمین و آسمان کو حق [٨] کے ساتھ پیدا کیا۔ وہ رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے اور سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا۔ ہر ایک، ایک مقررہ وقت تک یونہی [٩] چلتا رہے گا۔ یاد رکھو! وہی سب پر غالب [١٠] اور بخش دینے والا ہے۔
ف 1: اللہ تعالیٰ قیامت میں ان لوگوں کو بتائیں گے کہ شرک سے ان میں کس درجہ پستیاں اور ذلتیں آگئی ہیں ۔ اور کس درجہ لوگ اللہ کی رحمتوں سے دور ہوگئے ہیں ۔ اس وقت ان کی آنکھیں کھلیں گی ۔ ان کو محسوس ہوگا کہ جن معبودان باطل کو یہ اللہ کے قرب کا ذریعہ قرار دیتے تھے وہ خود اللہ کے مصوب ہیں اور اس کی نگاہ غضب کا شکارا ۔ اس وقت ان کی آنکھوں سے حجاب دور ہوجائے گا ۔ اور حقیقت کو واضح طور پر اپنے سامنے دیکھیں گے *۔ ف 2: خالق السموت والارض بالحق سے مراد یہ ہے کہ دنیا کو یونہی بلا کسی مقصد متعین کے پیدا نہیں کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ ماونین سمجھتے ہیں ۔ بلکہ اس کے پیدا کرنے سے ایک غرض مدنظر ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان زمین میں اللہ کی نیابت کا اظہار کرے ۔ اور اپنے افعال واعمال سے ثابت کردے ۔ کہ وہ رب السموات والارض سے تعلق ارادت رکھتا ہے اور احکم الحاکمین کا بندہ اور غلام ہے *۔