سورة ص - آیت 85

لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكَ وَمِمَّن تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کہ میں جہنم کو تجھ [٧٥] سے اور ان سب لوگوں سے بھر دوں گا جو تیری پیروی کریں گے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

شیطان نے کیوں گستاخی کی ف 1: شیطان کے انکار سے طبیعتوں میں یہ شبہ پیدا ہوتا تھا ۔ کہ اس کو اس کے قرب کے باوجود اور یہ جانتے ہوئے ۔ کہ اللہ کے حکموں کی مخالفت کی سزا کتنی سخت ہوسکتی ہے ۔ یہ جرات کیسے ہوئی ۔ کہ صاف صاف بغاوت کا اظہار کرے ۔ اور خدا کے حضور میں برملا کہہ دے ۔ کہ میں آپ کے اس حکم کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں ۔ جہاں تک گناہوں کی نفسیات کا تعلق ہے ۔ ان کی وجہ یہ ہوئی ہے ۔ کہ انسان کو ان کے خوفناک نتائج کا قطعی علم نہیں ہوتا ۔ اور اللہ پر بحکم اور مضبوط ایمان نہیں ہوتا ۔ اور اگر نتائج کے متعلق یقینی علم ہو ۔ تو پھر معصیت پر جسارت کا حوصلہ کم ہوتا ہے ۔ کیا وہ شخص جس کے سامنے سمندر متلاطم ہو ۔ اس میں کود سکتا ہے ۔ جو اپنی آنکھوں کے سامنے آگ کا الاؤ دیکھ رہا ہو ۔ کیا وہ اس میں اپنے کو جھونک سکتا ہے ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص سوراخ میں بچھو یا سانپ اپنی آنکھ سے دیکھے اور بھر اس میں اپنی انگلی ڈال دے اگر یہ ممکن نہیں ہے ۔ تو پھر یہ کیونکر ہوسکتا ہے ۔ کہ شیطان جس کو خدا سے حددرجہ قرب حاصل تھا ۔ خدا کی گفتگو کو سنتا تھا ۔ اور محسوس کرتا تھا ۔ کہ وہ اپنی جلالت قدر اور عظمت میں کتنا بڑا ہے ۔ اور یہ بھی جانتا تھا ۔ کہ اس کی مخالفت کے معنے اس کے غضب واقتدار کو آزمانا ہے ۔ اس کی مخالفت پر آمادہ ہوجائے ۔ اور یک بیک باغی ہوجائے ۔ اور جرات کے ساتھ کہہ دے کہ میں آدم کے سامنے نہیں جھک سکتا ؟*۔ ان آیتوں میں اللہ نے اتنی بڑی گستاخی اور اتنی بڑی جسارت کا سبب بتادیا ہے ۔ بات یہ ہے کہ باوجود قرب اور حضوری کے ہزاروں ایسے حجاب ہیں جو درمیان میں حائل ہیں ۔ یہ درست ہے کہ شیطان ہم سے زیادہ مقام تزلف پر فائز تھا ۔ مگر اسی تناسب کے ساتھ اس میں اور اللہ میں حجابات بھی زیادہ تھے اور وہ جس حجاب کی وجہ سے اس تقرب سے محروم ہوا ۔ وہ حجاب کبروغرور ہے ۔ اس نے اس کے مرتبہ ومقام کو اس کے ذہن سے اوجھل کردیا ۔ اس کی وجہ سے یہ بھول گیا ۔ کہ میں اس وقت کس جناب عالی وقار سے گفتگو کررہا ہوں ۔ اس لئے گستاخی کا مرتکب ہوا ۔ اور مردود قرار پایا ہوسکتا ہے یہ گفتگو ان معنشوں میں نہ ہو ۔ جن میں ہم سمجھتے ہیں ۔ اور صرف یہ بتانا مقصود ہو کہ جہاں تک مقتضائے طبیعت ہے ۔ دنیائے کون میں دو طرح کے عناصر ہیں ۔ ایک وہ ہیں جو انسان کے تابع اور مسخر ہیں ۔ یا اسکا اس کے عزائم خیر میں ساتھ دیتے ہیں اور دوسرے طبعات اس کے مخالف اور سرکش وباغی ہیں ۔ خدا کے نیک بندوں کا فرض یہ ہے کہ وہ نیابت الٰہیہ کے فرض کو خوبی کے ساتھ انجام دیں ۔ اور ہر دو قسم کے عناصر پر قبضہ وقدرت حاصل کرلے ۔ واضح رہے کہ شکایت حال وطبیعت کے لئے بھی قال وقیل کے الفاظ عربی میں مستعمل ہیں ۔ جیسے اذا متلاء الحوض قال قطنی اس لئے یہ توجیہہ بھی لائق اغناء ہے ۔ اس طرح گویا قصہ کی یہ نوعیت ہی بدل جائے گی ۔ اور مدعا یہ قرار پائیگا ۔ کہ رب فاطر انسان کو اس مکالمہ کے ذریعہ اس کی عزت اور اس کے مقام اور مرتبہ سے آگاہ کرنا اور اس میں تفوق وبرتری کے احساسات پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ حل لغات :۔ رجیم ۔ مرود * انظرنی ۔ مجھے مہلت دیجئے * من المتکلفین ۔ یعنی میں جس سیرت کا اظہار کر رہا ہوں ۔ اس میں سراسر حقیقت اور واقیت ہی ہے نمائش اور بناوٹ کو اصلا دخل نہیںَ