سورة ص - آیت 73

فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

چنانچہ سب فرشتوں نے مل کر اسے سجدہ کیا۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

اللہ کے نائب کا عہدہ (ف 1) یہ اس وقت کی بات ہے جب اللہ تعالیٰ انسان کو وجود کی نعمت سے بہرہ ور کرنے کو تھا ۔ جب یہ طے ہورہا تھا کہ اس ظلوم وجہول کے کندھے پر خلافت عظمی کا بار رکھا جائے ۔ جب ملاء اعلیٰ کے روحانی نعمتوں سے معمور تھا ۔ اورخلاق اکبر کو یہ منظور تھا کہ زمین کو بشر کی ہنگامہ آرائیوں کا مرکز بنایا جائے ۔ اس وقت اس میں خودداری وعظمت کا جذبہ بیدار کرنے اور زمین میں بہترین نائب بنانے کے لئے یہ ضروری قرار دیا گیا کہ ملاء اعلیٰ کو اس کے سامنے جھکایا جائے اور اس کو بتلایا جائے کہ دنیا میں جانے کا مقصد تسخیر کائنات ہے ۔ تم اس لئے خلعت وجود سے نوازے جارہے ہو ۔ تاکہ قدرت کی بلند ترین اور پاکیزہ ترین قوتوں کو اپنے سامنے جھکاؤ۔ اور خود صرف اللہ کے سامنے جھکو ۔ یہ انداز بیان (اسی لئے) اختیار کیا گیا ہے کہ موجودہ انسان اپنی رفعتوں اور عظمتوں کا صحیح صحیح اندازہ کرسکے ۔ فرمایا کہ جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ دیکھو میں مٹی سے ایک انسان بنانیوالا ہوں ۔ جب میں اس کو بنالوں اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں ۔ تو تمہیں یہ زیبا ہے کہ اس کے احترام میں اس کے روبرو سجدہ میں گرپڑنا۔ چنانچہ تمام قدسیاں حریم ، عزت وجلال نے آدم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا ۔ اور نہایت عقیدت سے اس کے سامنے جھک گئے ۔ مگر ابلیس نے انکار کیا ۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محرومی وشقاوت کو خرید لیا ۔ اس کے انکار سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم سے پہلے اس قابل ضرور تھا کہ فرشتوں کے ساتھ اسے بھی سجدہ کا مکلف قرار دیاجائے ۔ اس کے بعد محض اپنی سرکشی سے وہ ابلیس بنا ہے ۔ اور کبر و غرور سے شیطنت کی مسند پر بیٹھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے نیک ہی پیدا کیا تھا ۔ اور اس کے مناسب بھی یہی تھا کہ وہ فرشتوں کے ساتھ ساتھ خدا کی اطاعت کا ثبوت دے ۔ مگر اعجاب نفس کے مرض نے اسے ہلاکت کے گڑھے میں پھینک دیا ۔ اور دائما غضب الٰہی کا اسے مورد ٹھہرایا ۔