أَتَّخَذْنَاهُمْ سِخْرِيًّا أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ
کیا ہم یونہی ان کا مذاق اڑاتے رہے؟ یا اب ہماری نگاہیں ہی ان سے [٦٣] پھر گئی ہیں؟''
(ف 1) کیا بات ہے ہم ان کو نہیں دیکھتے ہیں یا یہ کہ ہماری نظروں میں کچھ فتور ہے ؟ یعنی دنیا میں تو انہیں اپنے مال اور ذہنی دولت پرناز تھا ۔ اپنے اعمال اور اپنی سمجھ پر غرور تھا ۔ ان کو یقین تھا کہ ہم امن وصلاح کے حامی ہیں ۔ اور یہ مسلمان حقیر اور ذلیل ہیں ۔ مفلس اور غریب ہیں ۔ یہ خواہ مخواہ اسلام کو پھیلا کر گویا فتنوں اور اختلافات کو بڑھاتے ہیں ۔ اس لئے ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا ۔ اور ہم جنت میں جائیں گے ؟ مگر یہاں معاملہ بالکل خلاف ہوگا ۔ یہ لوگ اپنے غرور نفس اور خدع وفریب میں مبتلا اپنے کو جہنم میں پائیں گے ۔ اور یہ دیکھ کر مسلمان یہاں نہیں ہیں سخت بوکھلائیں گے ۔ اس وقت ان کی آنکھیں کھلیں گی اور ان کو معلوم ہوگا کہ اللہ کے نزدیک مسلمانوں کی کیا قدروقیمت ہے ۔ اس وقت یہ محسوس کریں گے کہ یہ محرومی سعادت وفلاح سے محرومی ہے ۔ مگر ﴿وَلَاتَ حِينَ مَنَاصٍ﴾ فرمایا یہ مکالمہ اور تخاصم جو اہل نار کے مابین ہوگا یہ قطعی اور حتمی ہے ۔ اور اس کو بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ حضور (ﷺ) کو بذریعہ وحی والہام یہ سب کچھ بتلایا گیا ہے ۔ ورنہ انسانی علم کی کوتاہی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ان احوال وکوائف کے متعلق کچھ نہ جان سکے ۔ حل لغات : سِخْرِيًّا۔ ہدف استہزاء۔