رُدُّوهَا عَلَيَّ ۖ فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالْأَعْنَاقِ
(آپ نے حکم دیا کہ) کہ ان گھوڑوں کو میرے پاس واپس لاؤ تو آپ ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔
حضرت سلیمان کے گھوڑے ف 1: حضرت سلیمان کے متعلق اس قصہ میں بھی افسانہ آرائی سے کام لیا گیا ہے ۔ اور ان کے متعلق بھی ان کے باپ کی طرح یہ الزام لگایا گیا ہے ۔ کہ انہوں نے نماز عصر کو قضا کردیا تھا ۔ محض گھوڑوں سے محبت اور فریفتگی کی وجہ سے اور پھر آخر میں جب انہوں نے محسوس کیا ۔ کہ بڑی غفلت ہوئی ۔ تو ان گھوڑوں کو قتل کردیا تھا ۔ تاکہ نہ یہ رہیں اور نہ آئندہ آزمائش وابتلاء کا موقع پیش آئے ۔ یہ قصہ قطع نظر اس کے قرآن کے انداز بیان کے خلاف ہے ۔ اور منصب نبوت کے منافی بجائے خود اس درجہ رکیک ہے ۔ کہ عقل تسلیم نہیں کرتی ۔ کیونکہ حضرت سلیمان خود بادشاہ تھے ۔ بادشاہ کے بیٹے تھے ۔ ہمیشہ جاہ وحشم کو دیکھا تھا ۔ گھوڑوں کی سواری کی تھی ۔ یہ قرین عقل نہیں کہ وہ چند گھوڑوں پر اتنے ریجھ گئے ہوں کہ فرائض منصبی ہی بھول جائیں * غور طلب یہ حقیقت ہے کہ قرآن نے بطور انعام مقام فضیلت میں یہ ذکر کیا ہے کہ ہم نے حضرت داؤد کو سلیمان جیسے مولود مسعود سے نوازا ۔ جو ہمارے بہترین بندے تھے ۔ اور جن میں رجوع الی اللہ کا جذبہ بہت زیادہ تھا ۔ پس ان اوصاف لاحامل کیا نماز جیسا فریضہ بھول سکتا ہے *۔ اصل بات یہ ہے کہ حضرت سلیمان اپنے والد بزرگوار کی طرح دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے ۔ اور دین کی اشد محبت اپنے دل میں پنہاں رکھتے تھے ۔ اور چاہتے تھے ۔ کہ دشمن بھی ان کی حقانیت کے قائل ہوجائیں ۔ اس لئے بالطیع جہاد کی ضرورت محسوس کرتے تھے ۔ ان آیات میں ان کے اسی جذبہ جہاد کا ذکر ہے ۔ کہ ایک دن جب ان کے حضور میں عمدہ عمدہ گھوڑے پیش کئے گئے ۔ تو انہوں نے فرمایا ۔ کہ مجھے ان سے بہت محبت ہے ۔ اور یہ محبت اس لئے ہے کہ میرے رب نے جہاد کا اور اس کی تیاریوں کا حکم دے رکھا ہے ۔ اور جہاد کے لئے ان گھوڑوں کی بڑی ضرورت ہے ۔ وہ یہ کہہ رہے تھے ۔ کہ گھوڑے آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ۔ انہوں نے حکم دیا کہ دوبارہ ان کو پیش کرو ۔ اور پھر ازراہ شفقت ومحبت خود ہی گردن اور ان کے پاؤں سہلانے لگے ۔ غرض یہ ہے کہ حضرت سلیمان جہاد کے لئے گھوڑوں کی تربیت میں بنفس نفیس حصہ لیتے تھے *۔