إِذْ دَخَلُوا عَلَىٰ دَاوُودَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ ۖ قَالُوا لَا تَخَفْ ۖ خَصْمَانِ بَغَىٰ بَعْضُنَا عَلَىٰ بَعْضٍ فَاحْكُم بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَلَا تُشْطِطْ وَاهْدِنَا إِلَىٰ سَوَاءِ الصِّرَاطِ
جب وہ داؤد کے پاس آپہنچے تو وہ انہیں دیکھ کر گھبرا [٢٥] گئے۔ وہ کہنے لگے ڈرو نہیں۔ ہم مقدمہ کے دو فریق [٢٦] ہیں جن میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے لہٰذا ہمارے درمیان انصاف سے فیصلہ کیجئے۔ اور زیادتی نہ کیجئے اور ہمیں سیدھی راہ بتائیے۔
حضرت داؤد ف 1: اس مقام پر حضرت داؤد (علیہ السلام) کا ذکر مدح وستائش کے انداز میں ہے ۔ یہ کہا گیا ہے کہ وہ صاحب قوت واقتدار تھے ۔ وہ خدا کے حضور میں خشوع قلب کے ساتھ جھکتے تھے ۔ پہاڑ ان کے مستخر تھے ۔ پرندے ان کے اشارہ وچشم کے منتظر رہتے ۔ ان کی حکومت نہایت مضبوط اور مستحکم تھی ۔ اللہ نے حکمت وتدبیر اور فصاحت وبلاغت کی نعمتوں سے انہیں نوازا تھا ۔ اللہ کے ہاں ان کو قرب حاصل تھا ۔ یہ انجام وعاقبت کے لحاظ سے بہترین انسان تھے ۔ اور زمین میں ان کو اللہ کا نائب بنا کر بھیجا گیا تھا ۔ اور ان کو حکم دیا گیا تھا کہ لوگوں میں حق وانصاف کے ساتھ فیصلے صادر فرمادیں ۔ اور خواہشات نفس کی پیروی نہ کریں ۔ ان فضائل ومجاہد کی روشنی میں آپ اسے ناپاک قصے کی لغویت وغور کیجئے ۔ جو حضرت داؤد (علیہ السلام) کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کیا اللہ نے اتنی تعریفیں محض اس لئے بیان فرمائی ہیں کہ ان کو معاذ اللہ ایک دنیوی بادشاہ کی طرح حریص وطامع انسان سمجھ لیا جائے ۔ کیا صاحب قوت واقتدار شخص اتنی اخلاقی بزدلی کا اظہار کرسکتا ہے ۔ کہ ایک عورت کے حصول کے لئے بلاوجہ موجد اس کے خاوند کو خفیہ منصوبوں کے ماتحت مروا ڈالے ۔ کیا وہ شخص جو اداب ہو جس کے نہایت بااقتدار ہو ۔ جو حکمت ودانائی کا مالک ہوں جس فصل خصومات میں اعلیٰ ترین قابلیت وبلاغت حاصل ہو ۔ وہ ایسی ذلیل حرکات کا ارتکاب کرسکتا ہے ۔ کیا اللہ کے نائب سے اس نوع کے کمینہ افعال کی توقع جاسکتی ہے ۔ معلوم نہیں کیونکر یہ بیہودہ افسانہ ہماری تفسیروں کا جزو بن گیا ۔ حالانکہ زمانہ صحابہ میں بھی اس واقعہ کی تردید کی گئی ۔ حضرت علی فرمایا کرتے تھے ۔ کہ جو واعظ اس قصے کو بیان کرے گا ۔ میں اس پر حد قذف جاری کرونگا ۔ اور اس کے درے لگاؤ نگا ۔ یہ گھڑت بائبل میں تو موجود ہے ۔ اور وہاں اس لئے ناقابل اعتراض ہے ۔ کہ اہل کتاب کے نزدیک حضرت داؤد پیغمبر نہیں تھے ۔ صرف ایک بادشاہ تھے ۔ اس لئے اس طرح کے قصوں کا انتساب ان کی طرف ہوسکتا تھا مگر قرآن کے نزدیک وہ پیغمبر ہیں ۔ جو نہ صرف معصول ہوتے ہیں ۔ بلکہ ان کا منصب یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے لئے اخلاق وعادات میں بہترین اسوہ اور نمونہ ہوں ۔ پھر یہ کیونکر جائز ہوسکتا ہے ۔ کہ ان کی طرف ایسے افسانے کا انتساب کیا جائے ۔ اصل قصہ یہ ہے ۔ کہ حضرت داؤد کے پاس بےوقت اور ناجائز طریق سے دو آدمی آئے ۔ ان کو خطرہ محسوس ہوا ۔ کہ شاید یہ دشمنوں کے مقرر کردہ جاسوس ہوں اور میرے قتل کے سلسلے میں آئے ہوں ۔ اس کے بعد انہوں نے وہ قصہ بیان کیا ۔ جس کی تفصیل ان آیات میں مذکور ہے ۔ اور حضرت داؤد (علیہ السلام) سے فیصلہ چاہا *۔ حل لغات :۔ فصل الخطاب اظہار ما فی الضمیر کی اعلیٰ ترین قدرت یعنی جو کلام کو فصیح اور روشن ہو ۔ اور حق وباطل میں حمیز کردے * ولا تشطط ۔ زیادتی نہ کر *۔