وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَىٰ إِسْحَاقَ ۚ وَمِن ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ مُبِينٌ
اور ہم نے ابراہیم اور اسحاق دونوں پر برکت نازل کی۔ اور ان دونوں کی نسل [٦٧] میں کچھ تو نیک لوگ ہوئے اور کچھ اپنے آپ پر صریح ظلم کرنے والے تھے
ف 1: یہ ایک پرانا اختلاف ہے ۔ کہ ذبیچ کون ہے ۔ حضرت اسماعیل یا حضرت اسحاق ؟ صحیح اور محققانہ رائے یہ ہے کہ اس سعادت کا فخر حضرت اسمٰعیل کو حاصل ہوا ۔ دلائل یہ ہیں :۔ (1) قرآن کا انداز بیان اس پر شاہد ہے ۔ کیونکہ اس سارے واقعہ کو بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے ۔ وبشرناہ باسحاق یتبا من الصالحین ۔ کہ ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق کی نبوت اور سعادت کی خوشخبری سنائی ۔ دوسری جگہ فرمایا ہے ۔ کہ ہم نے اس بات کی بھی بشارت دی تھی ۔ کہ حضرت اسحاق کی نسل بڑھے گی ۔ اور ان کے ہاں یعقوب پیدا ہوں گے ۔ ومن وراء اسحاق یعقوب پھر یہ کیونکر ممکن ہے ۔ کہ جس بیٹے کو آئندہ چل کر نبوت کا اعزاز حاصل کرنا ہے ۔ اور جس کا ایک نسل کا باپ ہونا پہلے سے مقدور ومعلوم ہے ۔ اس کو ابراہیم ذبح کرنے کے لئے تیار ہوجائیں *۔ (2) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے متعلق ارشاد فرمایا ہے انا امن الذبحین ۔ یہاں غلام حلیم کا تذکرہ ہے اور دوسری جگہ تصریح فرما دی ہے کہ اس حلم وصبر کے مستحق حضرت اسماعیل (علیہ السلام) تھے ۔ واسمعیل والیسع وذوا الکفل کل من الصابرین *۔ (3) اسلوب بیان سے ظاہر ہے ۔ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پہلے اولاد نہیں ہے ۔ اور وہ ایک ایسا مسعود مولود چاہتے ہیں ۔ جو ان کے منصب صلاح وتقویٰ ہی آپ کے پہلو ٹھے بیٹے تھے *۔ (4) آج تک نحر اور قربانی کی رسوم کا تعلق ارض بیت اللہ سے ہے ۔ اگر حضرت اسحق مراد ہوتے تو قربانی کا مرکز شام ہوتا *