إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ
بلاشبہ ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں [١٢]۔ ہم ان کے وہ اعمال بھی لکھتے جاتے ہیں جو وہ آگے بھیج چکے اور وہ آثار بھی جو پیچھے [١٣] چھوڑ گئے۔ اور ہم نے ہر چیز کا ایک واضح کتاب [١٤] (لوح محفوظ) میں ریکارڈ رکھا ہوا ہے۔
ضبط اعمال کا نظریہ ف 1: ضبط اعمال کانظریہ قرآن حکیم نے پیش فرمایا ہے ۔ اور یہ نظریہ ان محترعات علمی سے ہے جن کو آج پیش کیا جارہا ہے ۔ جہاں تک گفتگو کا تعلق تھا ۔ اب یہ مشاہدہ ہے ۔ کہ ہر لفظ جو زبان سے نکلتا ہے ۔ پتھر کے تموجات اس کو فضا میں پھیلا دیتے ہیں ۔ اور وہ گم نہیں ہوتا ۔ اور اگر کہیں ایسے آلات نصب ہوں ۔ جو ان تموجات کو اپنی گرفت میں لے سکیں ۔ تو فضا میں منتشر اقوال صاف سنائی دینے لگتے ہیں ۔ چاہے متکلم اور سامع میں ہزاروں کوس کا فاصلہ ہوا ۔ اس طرح یہ بھی صحیح ہے ۔ کہ نفس اعمال کے الزات بھی ضائع نہیں جاتے ۔ فضا میں ایسے برقی ذرات ہیں (الیکڑان) جو ان کو زندہ جاوید بنا دیتے ہیں ۔ مگر ابھی تک یہ نہیں معلوم ہوسکا ۔ کہ ان اعمال کے ضبط کی کیا ضرورت ہے ۔ بہرحال یہ مسئلہ کہ فرشتے اعمال کو لکھ لیتے ہیں ۔ صرف مذہبی افسانہ نہیں رہا ہے ۔ بلکہ یہ ایک طبعی حقیقت بن گیا ہے ۔ اور انسانی علم جس قدر آگے بڑھے گا ۔ وہ یہ دیکھے گا ۔ کہ مذہب اور سائنس کی حدود آپس میں مل رہی ہیں ۔ اور ان میں کوئی اختلاف نہیں ۔