سورة يس - آیت 1

س

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یٰس [٢]

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 1: یہ سورۃ مکی ہے ۔ اس میں وہی مضامین ہیں جو تمام مکی سورتوں میں پائے جاتے ہیں ۔ یعنی قرآن کے فضائل اور محسامد رسالت کا ذکر اور توحید کا تذکرہ یا حسر ونشر کے متعلق شکوک وشبہات کا بیان اور ان کا ازالہ *۔ قرآن میں جہاں جہاں قسمیں آئی ہیں ۔ وہاں ان سے مراد ایک قسم کا استشہاد اور استدلال ہوتا ہے ۔ مثلاً یہاں قرآن حکیم کو بطور مقسم بہ کے ذکر کیا ہے ۔ اور اس کے بعد فرمایا ہے کہ آپ بلاشبہ اللہ کے رسول ہیں ۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ آپ کی نبوت اور رسالت پر بہترین دلیل خودیہ صحیفہ حکمت ہے ۔ اس میں جنتا غور کیجئے گا ۔ آپ کو معلوم ہوگا ۔ کہ یہ حیرت انگیز کتاب ہے ۔ اس کی بلاغت اس کا معارف سے معمور ہونا ۔ اس کا ایک خاص پیغام کا حامل ہونا ور مدلل ومبرمین ہونا ۔ یہ سب باتیں اس حقیقت پر شاہد عدل ہیں ۔ کہ یہ کتاب کسی انسان کے دماغ کا نتیجہ نہیں ہے ۔ پھر اس میں ایسے علمی خوارق ہیں ۔ جن پر کوئی بشر پہلے سے آگاہ نہیں ہوسکتا ۔ یہ واقعہ ہے ۔ کہ انسانوں کے لئے اس سے بڑا معجزہ اور کوئی نہیں ہوسکتا ۔ کہ ایک امی آج سے چودہ سو سال قبل ایک ایسی کتاب پیش کرے ۔ جو آج بھی نہ صرف لائق عمل ہو بلکہ واجب العمل ہو ۔ اور آج بھی جو مذہب کا تخیل پیش کرے ۔ وہ انسانی عقول نے صدیوں کے علم کے بعد حاصل کیا ہے ۔ اسی لئے ارشاد فرمایا ہے ۔ کہ اس قرآن حکیم کو دیکھو ۔ اس کی خوبیوں کی تخیل کرو ۔ اس کے فضائل کو ٹٹولو ۔ اور اس کے پیغام کو بنگاہ وقت وعبرت دیکھو ۔ تم بول اٹھو گے ۔ کہ اس کو پیش کرنے والا اللہ کا رسول ہے ۔ اور یہ ایسی کتاب ہے جو صراط مستقیم کی جانب دعوت دیتی ہے ۔ اور عزت ورحمت کا سزا وار بنادیتی ہے ۔ یہ اتمام حجت ہے ۔ ان لوگوں پر جو اس سے پیشتر فیوض نبوت سے محروم رہے ہیں ۔ اور جن کی یہ خواہش رہی ہے ۔ کہ ہم میں بھی کوئی پیغمبر مبعوث ہو ۔ جو ہمارے لئے شرف ومجد کا موجب ہو ۔ مگر اب جب ان کی آرزو پوری ہوچکی ہے ۔ اور اللہ کے فضل سے ایک داعی نے انہیں بیدار کرنا شروع کردیا ہے ۔ تو یہ اور زیادہ الجھ رہے ہیں ۔ اور عمداً صداقت کا انکار کررہے ہیں ۔ ان کے لئے فطرت کا فیصلہ یہی ہے ۔ کہ یہ ایمان کی دولت سے قطعی محروم رہیں ۔ ان کی گردنوں میں رسم ورواج کے گرانبار طوق پڑے ہیں ۔ اور ان کے آگے اور پیچھے تعصب وخود پسندی کی دیواریں کھڑی ہیں ۔ اس لئے ان میں یہ استعداد ہی نہیں رہی ۔ کہ ہدایت کو قبول کرسکیں اور حقائق کر دیکھ سکیں ۔ فرمایا کہ آپ چاہے ان کو کتنا ہی خشیت اور خوف الٰہی سے متائر کریں ۔ ان پر مطلق اثر نہیں ہوگا ۔ ان کے دلوں میں وہ شئے لطیف ہی نہیں ہے اور وہ جس ہی موجود نہیں ۔ جو ایمان کا ذریعہ بن سکے ۔ کیونکہ متاثر تو وہ ہوتا ہے ۔ اور قلب تو اس شخص کا انوار قرآنی سے روشن ہوتا ہے ۔ جو قرآن کی پیروی کرے اور اس کی یہ خواہش ہو کہ قرآن کی برکتوں اور سعادتوں سے اپنا دامن بھرلے ۔ وہ رحمن سے ڈرتا ہے ۔ حالانکہ اس نے اس کو دیکھا تک نہیں ہے ۔ یہی لوگ درحقیقت بخشش اور اجر کے مستحق ہیں ۔ اور اس لائق ہیں ۔ کہ آپ ان کو باقاعدہ ان کی کامیابی پر خوشخبری سنائیں *۔ حل لغات :۔ اغلالا ۔ غل کی جمع ہے ۔ بمعنی طوق آہنی ، عدم ابتداء سے کنایہ ہے * الاذقان ۔ ذقن کی جمع ہے ۔ بمعنے ٹھوڑی * سدا ۔ دیوار *۔