وَقَدْ كَفَرُوا بِهِ مِن قَبْلُ ۖ وَيَقْذِفُونَ بِالْغَيْبِ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ
حالانکہ اس سے پہلے وہ (دنیا میں) انکار کرچکے تھے اور بن دیکھے (اندھیرے میں) انہیں بہت دور کی سوجھتی [٧٨] تھی۔
(ف 1)﴿يَقْذِفُ بِالْحَقِّ﴾ سے مراد یا تو یہ ہے کہ باوجود تمہاری مساعی کے میرا رب ضرور اس کے لئے لوگوں کے دلوں میں پذیرائی کی صلاحیت پیدا کرے گا ۔ اور ضرور اسلام کی سچائی اور صداقت کو ان کے قلوب میں ڈال دے گا ۔ کیونکہ صداقت بجائے خود اپنے اندر جاذبیت رکھتی ہے ۔ اور اس لائق ہوتی ہے کہ لوگ اس کو ترجیح دیں ۔ یایہ مراد ہے کہ ﴿بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ﴾یعنی حق باطل سے متصادم ہوتا ہے اور باطل دب جاتا ہے ۔ اور حق کو غلبہ وقوت عطا ہوتی ہے ۔ تم بھی یہ دیکھتے رہو کہ اسلام کے عقائد کیونکر تمہارے مزعومات باطلہ سے ٹکرا کر انہیں کس طرح پاش پاش کردیتے ہیں ۔ حق وصداقت کی پرکھ یہ بھی ہے کہ بالآخر حق بقاو دوام کی نعمت سے نوازا جاتا ہے ۔ اور باطل فنا کی گہرائیوں میں گم ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ جس طرح کائنات کی مادی چیزوں میں بقاء الاصلح کا قانون جاری ہے ۔ اسی طرح حقائق دینی ونظریات میں بھی یہی قانون کارفرما ہے۔ غلط اور مضر عقیدے زیادہ مدت تک قائم نہیں رہ سكتے اور ان کو فروغ حاصل نہیں ہوسکتا ۔ ان میں منطقی طور پر وہ زندگی نہیں ہوتی جو ہمیشہ باقی رہ سکے ۔