قُلْ أَرُونِيَ الَّذِينَ أَلْحَقْتُم بِهِ شُرَكَاءَ ۖ كَلَّا ۚ بَلْ هُوَ اللَّهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
آپ ان سے کہئے : مجھے وہ ہستیاں دکھاؤ تو سہی جنہیں تم نے اللہ کا شریک بنا کر اس سے ملا دیا ہے۔ وہ ہرگز نہ بتا سکیں گے۔ بلکہ اللہ ہی سب [٤٢] پر غالب اور حکمت والا ہے۔
حقیقت ثانیہ حضور کو مخاطب فرمایا ہے اور کہا ہے ۔ کہ ان لوگوں سے پوچھئے جو ماسوا میں الجھے ہوئے ہیں ۔ اور شرافت انسانی سے قطع نظر کرکے کائنات کے حقیر مظاہر کے سامنے جھکتے ہیں ۔ کہ تمہیں آسمانوں اور زمین سے کوئی روزی عطا کرتا ہے ؟ یعنی یہ ابروباد کا انتظام کس کے ہاتھ میں ہے ۔ کون پانی سے لدی ہوئی ہوائیں بھیجتا ہے اور کون مردہ کھیتوں کو ہرا بھرا اور شاداب بنادیتا ہے ؟ کون انگوریاں ۔ غلہ اور چارہ پیدا کرتا ہے ؟ فرمایا : کہ اس سوال کا جواب سوائے اسکے کیا ہوسکتا ہے کہ یہ اللہ کا اختیار میں ہے ۔ گیا یہ جواب اتنا سچا اور وقیت پر مبنی ہے ۔ کہ کوئی شخص اس سے اختلاف نہیں کرے گا * اس کے بعد فرمایا : کہ اس حقیقت ثانیہ کے بعد اب تمہیں غور کرنا چاہیے ۔ کہ ہم دونوں میں سے کون راہ راست پر گامزن ہے اور کون گمراہ ہے کون صداقت شعار ہے اور کون اصنام پرستی میں مبتلا ۔ کون اس خدا کو مانتا ہے جو حقیقی اور سچا رازق ہے اور کون ان بتوں کی پرستش کرتا ہے ۔ جن کا رزق کی کشائش اور تنگی میں کوئی دخل نہیں * آیت کے اس چھوٹے سے ٹکڑے میں چند لفظی اور معنوی صنائع ہیں ۔ جن کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور وہ یہ ہیں :۔ (1) انداز بیان ایسا اختیار کیا گیا ہے جو مشرکین کو بھڑکانہ دے اور غور تامل پر مجبور کردے ۔ یعنی یہ نہیں فرمایا کہ ہم دونوں میں سے ایک ضرور راہ صادق وصاف پر گامزن ہے اور دوسرا گمراہ ہے *۔ (2) تعلے ھدی کہہ کر گویا یہ بتادیا ہے ۔ کہ ہمارا راہ راست پر ہونا زیادہ قرین عقل ہے *۔ (3) ہدایت کے لئے علیٰ کا لفظ اور ضلال کے لئے فی استعمال کرنا یہ بھی ہی مصلحت سے ہے ۔ کہ توحید کی راہ طلوع و رفعت کی راہ ہے اور شرکت کی راہ گمراہی اور پستی کی *۔ (4) آؤ حرف تردید ہے ۔ جس کے معنے ہیں کہ حق وصداقت اور گمراہی میں کوئی تیسری راہ نہیں ہے ۔ ہر شخص کے متعلق بس دو ہی نقطہ نگاہ ہوسکتے ہیں ۔ یا تو وہ صحیح مسلک پر قائم رہے یا گمراہ *