لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ ۖ جَنَّتَانِ عَن يَمِينٍ وَشِمَالٍ ۖ كُلُوا مِن رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ ۚ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ
قوم سبا کے لئے ان کے مسکن میں ہی ایک نشانی [٢٤] موجود تھی۔ اس مسکن کے دائیں، بائیں دو باغ [٢٥] تھے۔ (ہم نے انھیں کہا تھا کہ) اپنے پروردگار کا دیا ہوا رزق کھاؤ [٢٦] اور اس کا شکر ادا کرو۔ پاکیزہ اور ستھرا شہر ہے اور معاف فرمانے والا پروردگار
سبا والوں کی سرکشی ف 1: قوم سبا کی گردوپیش کی بستیاں بالکل قریب قریب واقع تھیں راستے متعین اور پرامن تھے ۔ جب چاہتے ایک گاوں سے دوسرے گاؤں کی جانب آسانی سے منتقل ہوجاتے ۔ پھر جب انہوں نے سنا کہ دوسرے لوگوں کے ہاں شہر بہت زیادہ فاصلہ پر ہوتے ہیں ۔ اور وہ بہت بڑی مسافت طے کرکے ایک دوسرے کے پاس پہنچے ہیں ۔ تو وہ بھی اس بات پر الجھ گئے اور اللہ سے دعا کی ۔ کہ ہماری آبادیاں بھی دور دور واقع ہوں ۔ اور ہم بھی جدا جدا رہیں ۔ اور باقاعدہ سفر کرے ایک دوسرے کے پاس پہنچیں * ہوسکتا ہے یہ مطالبہ اسی قسم کا ہو جو بنی اسرائیل کا تھا یعنی وہ جب ایک طرح کی زنگدی سے اکتا گئے تو ترکاریوں کو من وسلویٰ پر ترجیح دینے لگے اور کہنے لگے کہ ہم توہی محت ومشقت کی زندگی کو پسند کرتے ہیں اسی طرح ان سباوالوں نے محض تفرع کی خاطر اس خواہش کا اظہار کیا ۔ اور چاہا ۔ کہ ان کی آبادیاں دور دور کے قطعات میں منقسم ہوجائیں ۔ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا ۔ کیونکہ اس طرح ان کے وحدت قومی میں انتشار پیدا ہوجاتا ہے ۔ اور یہ ایک مسلک کے لوگ دور دور رہنے کی وجہ سے ایک دوسرے کی ہمدردی سے بالکل محروم ہوجائے بلکہ یہ بھی ممکن تھا کہ ان میں باہمی عداوت اور رقابت کے جذبات پیدا ہوجاتے *۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس خواہش کو پورا کردیا ۔ یہ مختلف گروہوں اور ٹکڑیوں میں بٹ گئے ۔ اور بالآخر اس تشتت اور افتراق کی بدولت مٹ گئے اور صرف ان کے افسانے باقی رہ گئے *۔ یعدبین اسفارنا کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ ان لوگوں نے ازراہ سرکشی عذاب کا مطالبہ کیا ہو ۔ اور یہ کہا ہوں کہ ہم صداقت اور سچائی کو قبول نہیں کرسکتے اگر وافعی اس کفر کا نتیجہ ہلاکت سے تو آجائے اور ہماری بستیوں کو یوران کردے ۔ ہم اس ویرانی اور ہلاکت کا انتظار اور عذاب کا خیر مقدم کرتے ہیں *۔ حل لغات :۔ قری شاھرۃ یعنی قریب قریب اس طرح کہ ایک گاؤں سے دوسرا گاؤں دکھائی دے * احادیث ۔ خبری اور افسانے بمعنی اول جمع حدیث وبمعنی ثانی جمع احمد ولہ * مزقلھم کئی ٹکڑیوں میں تقسیم کردیا یا تباہ کردیا * من سلطان غلبہ یعنی شیطان براہ راست انسان پر غالب نہیں ہے یا کہ محض وسوسہ اندازی قلب ودماغ میں گمراہ کن خیالات بھردیتا ہے *۔