أَفْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَم بِهِ جِنَّةٌ ۗ بَلِ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ فِي الْعَذَابِ وَالضَّلَالِ الْبَعِيدِ
معلوم نہیں کہ وہ اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے یا اسے جنون لاحق ہوگیا [١٠] ہے؟ یہ بات نہیں [١١] بلکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے وہی عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں اور گمراہی میں دور تک چلے گئے ہیں۔
تابشِ نظر ف 1: پیغمبر کی نظروں میں اہام اور وحی کی وجہ سے اس درجہ تابش آجاتی ہے ۔ کہ وہ ان واقعات وحقائق کو اس طرح محسوس کرتے ہیں جو آئندہ کئی صدیوں کے بعد آنے والے ہیں جس طرح ہم موجودہ مناظر کو دیکھتے ہیں ۔ وہ ان کے متعلق محکم یقین رکھتے ہیں ۔ کیونکہ ان کے جانے کا ذریعہ کمزور استدلال نہیں ہوتا ۔ جس میں شک وشبہ کو اصلاً دخل نہیں ۔ وہ پیغمبر از بصیرت سے دیکھتے ہیں اور القاء وکشف سے حقائق وواقعات کو جانتے ہیں ان کے زمانے کے لوگ صرف الہام کی عظمت سے آگاہ نہیں ہوتے ۔ بلکہ پرلے درجے کے توگ ماہ نظر بھی ہوتے ہیں ۔ وہ ان کی باتوں کو محض جنون اور کذب سمجھتے ہیں ۔ ان کی نظریں سلیحی ہوتی ہیں ۔ اس لئے وہ اس طرح کی باتوں کو سنتے ہیں ۔ تو ہنسی میں اڑا دیتے ہیں ۔ اور بالکل باور نہیں کرتے کہ یہ اپنے وعملاں میں سچے ہیں ۔ چنانچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب خدا سے اطلاع پاکر قیامت کی خبردی ۔ اور یہ بتایا کہ جس دنیا کو تم دائمی سمجھتے ہو ۔ اس کا طلسم ایک دن ٹوٹنے والا ہے ۔ اور اس کے بعد پھر دوبارہ یہ عالم انسانی ظہور پذیر ہوگا ۔ اور ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق سزا اور جزا ملے گی ۔ تو انہوں نے اس عقیدے کو بڑی حیرت کے ساتھ سنا ۔ کبھی تو اس میں شکوک وشبہات کا اظہار کیا کبھی انکار کیا ۔ اور کبھی یہ کہا کہ یہ باتیں تو محض جنون کی باتیں ہیں ۔ بھلا یہ کیونکر ممکن ہے ۔ کہ موت کے بعد ہم زندہ ہوجائیں *۔ فرمایا اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ جو آخرت کو نہیں مانتے ہیں ۔ اور عقبیٰ کے حقائق کا انکار کرتے ہیں ذہنی اور فکری عذاب میں مبتلا ہیں ۔ ان سے بصیرت چھن چکی ہے ۔ یہ غور تلخص کی تمام استعدادوں سے محروم ہوچکے ہیں ۔ اور گمراہی کی اس منزل میں ہیں ۔ جہاں پہنچ کر انسان ہدایت سے بہت دور ہوجاتا ہے *۔ حل لغات :۔ آوبی ۔ اوب سے ہے جس کے معنے رجوع کے ہیں ۔ حضرت داؤد اور سلیمان کے متعلق ان آیتوں میں جن واقعات کا تذکرہ ہوا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ ان سے مراد حکمت وفطرت کے اسرار سے آگاہی ہو اور بتانا یہ مقصود ہے کہ یہ لوگ رب فاطر سے گہری گہری وابستگی کی وجہ سے فطرت کے امور سے پوری طرح آشنا ہوں ۔ پہاڑوں سے کام لیتے ہوں ۔ پرندوں کو حربی ضروریات کے لئے استعمال کرتے ہوں ۔ اور آہن وفولاد سے متعلقہ فن کو جانتے ہوں * ہوسکتا ہے اس وقت حضرت سلیمان نے ایسا مرکب ہوائی ایجاد کرلیا ہو جو فضا میں پرواز کرسکے ، اور ترقی کے فراز اعلیٰ تک رسائی حاصل کرلی ہو ۔ یہ سب چیزیں ممکن ہیں *۔