يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۚ وَهُوَ الرَّحِيمُ الْغَفُورُ
جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے یا اس سے نکلتا ہے نیز جو کچھ آسمان سے اترتا اور جو کچھ آسمان [٣] میں چڑھتا ہے، وہ ہر چیز کو جانتا ہے اور وہ رحم کرنے والا ہے اور معاف [٤] کرنے والا ہے
سورہ سبا ف 1: قرآن حکیم کا اصلی موضوع بیان یہ ہے کہ ذات باری کے متعلق جو شکوک وشبہات لوگوں کے دلوں میں جہالت کی وجہ سے پیدا ہوگئے ہیں ۔ ان کو دور کرے ۔ اور اس کے تصور کو اس طرح ایمان آفرین شکل میں پیش کرے کہ وہ نفیس انسانیت کے لئے بلندی اور رفعت کا سبب بن سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے صفات وشیون کو جس وضاحت کے ساتھ قرآن حکیم نے بیان فرمایا ہے اس کی مثال کسی مذہبی کتاب میں ملنا مشکل ہے ۔ بلکہ حق تو یہ ہے ۔ کہ فکر انسانی اس سے زیادہ اونچا نہیں اڑ سکتا ۔ اور خدا کے متعلق جس قدر قرآن نے بیان کیا ہے ۔ اس پر سرموا اضافہ ممکن نہیں *۔ فرمایا ستائش اور تعریفیں اس خدائے برتر کو سزاوار ہیں ۔ جو تمام بلندیوں کا مالک ہے ۔ اور زمین کی تمام گہرائیاں جس کے قبضہ قدرت میں ہیں دنیا بھی اسی کی ہے ۔ اور آخرت میں بھی اس کی تعریف ہے حکمت والا اور ہر بات سے آگاہ ہے ۔ اور ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جو زمین سے نکلتی ہیں اس کا علم ہر چیز (جمادی ہے) ان اشیاء کو بھی جو اسی کی طرف صعود کرتی ہیں وہ بدرجہ غائت رحم کرنے والا ہے اور نہایت بخشنے والا ہے *۔ اللہ کا یہ تخیل کتنا بلند اور واضح ہے ۔ کس درجہ قابل تاسی اور لائق اقتدار ہے ۔ یہ واقع ہے ۔ کہ قرآن حکیم جب اللہ تعالیٰ کے متعلق صفات کا تذکرہ کرتا ہے ۔ تو قلب عقیدت ومعرفت کے جذبات سے لبریز ہوجاتا ہے ۔ اور وجداتی طور پر محسوس کرتا ہے ۔ کہ وہ اس کی حضوری اور قرب میں ہے *۔