مَّا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ ۖ سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا
جو بات اللہ نے نبی کے لئے مقرر کردی ہے اس میں نبی پر کوئی تنگی نہیں۔ یہی اللہ کی سنت ہے جو ان نبیوں میں بھی جاری رہی جو پہلے گزر چکے ہیں اور اللہ کا حکم ایک طے شدہ فیصلہ [٦٢] ہوتا ہے۔
ف 2: حضرت زنیب کے نکاح کرکے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک پرانی رسم کو توڑدیا ۔ مگر دل منقیض تھا ۔ اس لئے آپ نہیں چاہتے تھے ۔ کہ اس طریق سے لوگوں کو نفس اسلام کے متعلق کچھ کہنے اور سننے کا موقع نہ ملے ۔ اس آیت میں آپ کی مزید طمانیت قلب کے لئے فرمایا کہ اس قسم کے معاملات میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ یہ اللہ کی سنت ہے ۔ کہ پیغمبر ہمیشہ عوام الناس کی خواہشات کے خلاف اقدام کرکے خود ملامتوں اور طعنوں کا نشانہ بن جایا کرتا ہے ۔ وہ تو مبعوث ہی اس لئے ہوتے ہیں ۔ کہ سوسائٹی اور سماج کے غلط مقام کو درہم برہم کردیں ۔ ان کے آنے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے ۔ کہ اپنے عمل سے اپنے لئے ایک بالکل اچھوتے اور جداگانہ طریق زندگی کی طرح ڈالیں اس لئے وہ بالطبع صرف خدا سے ڈرتے ہیں اور لوگوں کے خیالات اور جذبات سے بالکل بےنیاز ہوجاتے ہیں ۔ وہ صرف خدا سے مدد چاہتے ہیں ۔ اس لئے آپ منقبض نہ ہوں اور یقین رکھیں ۔ کہ ایک طے شدہ حکمت کے ماتحت کیا گیا ہے جس کی مصلحتیں آئندہ نسلوں کو محسوس ہوں گی *۔