وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا
اور جب آپ اس شخص [٥٦] کو، جس پر اللہ نے بھی احسان کیا تھا اور آپ نے بھی، یہ کہہ رہے تھے کہ : ’’اپنی بیوی کو اپنے [٥٧] پاس ہی رکھو اور اللہ سے ڈرو‘‘ تو اس وقت آپ ایسی بات اپنے دل میں چھپا [٥٨] رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا تھا۔ آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے، حالانکہ اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں۔ پھر جب [٥٩] زید اس عورت سے اپنی حاجت پوری کرچکا تو ہم نے آپ [٦٠] سے اس (عورت) کا نکاح کردیا، تاکہ مومنوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کرچکے ہوں اور اللہ کا حکم ہو کر رہنے والا [٦١] ہے۔
حضرت زینب کا قصہ ف 1: حضرت زید غلام تھے ۔ حضور نے انہیں آزادی کی نعمت بخشی ۔ اور پھر اپنی آغوش تربیت میں لے لیا ۔ یہ بڑھے اور پروان چڑھے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی پھوپھی زاد بہن ان کے نکاح میں دیدی ۔ تاکہ غلام کے رتبہ کو وشیا میں بلند کیا جائے ۔ اور یہ بتایا جائے کہ اسلام میں آقا وغلام کی کوئی تمیز نہیں ۔ جب کوئی شخص مسلمان ہوجاتا ہے اور آزادی کی نعمت کو بھی پالیتا ہے تو سابقہ غلامی کا داغ اس کے دامن پر نہیں رہتا ۔ بلکہ وہ اسلام کی روشنی سے چمک اٹھتا ہے ۔ پھر ایسا اتفاق ہوا ۔ کہ حضرت زید کی وجہ سے سماج کی ایک اور رسم کو توڑنا اللہ کو منظور ہوا ۔ اس لئے میاں بیوی میں نبھاؤ نہ ہوسکا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش تو یہی تھ ۔ کہ ان دونوں میں بنی رہے ۔ اور حتی الامکان تعلقات قائم رہیں ۔ مگر اللہ کو یہ منظور تھا کہ ان دونوں میں جب جدائی واقع ہوجائے ۔ تو آپ اس رسم کو توریں ۔ کہ متبنیٰ کو وہی حیثیت حاصل ہے ۔ جو بیٹے کو حاصل ہے ۔ اور حضرت زنیب سے نکاح کرلیں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وجہ سے کہ لوگ خواہ مخواہ اس پر معترض ہونگے ۔ چاہتے تھے کہ زید کے تعلقات نہ بگڑیں ۔ اور وہ آخر تک اس رشتہ کو نبھائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ خلوص کے ساتھ زید کو تقویٰ کی تلقین کرتے اور کہتے کہ اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک روا رکھو اور اسے نہ چھوڑو ۔ مگر فیصلہ خداوندی ہوچکا تھا ۔ کہ حضر زنیب کو ام المومنین کے شرف سے نواز جائے ۔ اور ان کی دلجوئی کی جائے اس لئے باوجود نہ جاہنے کے اور اس اشارہ خداوندی کو دل میں پنہاں رکھنے کے آپ بالآخر مجبور ہوگئے ۔ کہ حضرت زنیب سے نکاح کرلیں ۔ اتنی سب بات تھی جسے دشمنوں نے افسانہ کردیا ۔ اور یہ کہنا شروع کردیا ۔ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہو سے شادی کرلی ہے ۔ بڑا شور اور غوغا ہوا ۔ اللہ تعالیٰ یہ جانتے تھے ۔ کہ یہ سب کچھ ہوگا ۔ مگر چونکہ مقصدیہ تھا کہ ہمیشہ ہمیشہ مسلمانوں کو یہ دقت پیش نہ آئے ۔ کہ وہ اپنے منہ بولے بیٹوں کے ساتھ کس نوع کے تعلقات رکھیں ۔ اس لئے ضروری تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بڑھ کر ایک دلیرانہ اسوہ قائم کریں ۔ اور مسلمانوں کے لئے صحیح راہ ہدایت متعین کردیں ۔ یہ بات عزیمیت کی تھی ۔ اور پیغمبرانہ جرات وجسارت کی تھی ۔ کہ کیونکر آپ نے سماج کے ایسے قانون کو اپنے عمل سے توڑا جس سے آپ پر اعتراضات کی بوچھاڑ ہونے لگی ۔ دشمنوں کے لئے تو یہ بات قابل گرفت تھی ہی کہ بعض سادہ دل مفسرین نے بھی اس کو نہایت ذلیل انداز میں بیان کیا ہے ۔ اور تسلیم کرلیا ہے ۔ کہ معاذ اللہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت زنیب کو اچانک دیکھ کر عاشق ہوگئے تھے اس لئے دل میں اس خواہش کو چھپائے تھے ۔ اور لوگوں پر ظاہر نہ ہونے دیتے تھے ۔ اور چاہتے تھے ۔ کہ کسی طرح زنیب کو اپنے لئے حاصل کرلیں ۔ قطع نظر اس کے یہ افسانہ کسی درجہ منصب نبوت کی توہین کا باعث ہے ۔ آپ یہ غور فرمائیے کہ عقلاً یہ کیونکر درست ہوسکتا ہے ۔ جبکہ حضرت زنیب آپ کی پھوپھی زاد بہن تھیں ۔ آپ نے بار بار ان کو دیکھا تھا ۔ عمداً ان کی خواہش کے خلاف ان کو زید کے حوالے کیا تھا اور جب آپ نے سنا ۔ کہ ان میں باہم ناچاقی ہے ۔ تو دلسوزی سے ان کو ایسے اقدامات سے روکا تھا جو طلاق پر منتج ہوں ۔ اگر آپ چاہتے تو ابتداء ہی میں حضرت زینب کے لئے رشتہ فخر ومباہات کا باعث ہوتا امدوہ اس کو ضرور منظور کرلیتیں ۔ اصل بات یہ ہے ۔ کہ یہ قصہ محض لغو ہے ۔ ہمارے بعض مفسرین نے سادگی سے ایسی روایات کو جمع کردیا ہے ۔ جو دراصل مخالفین نے آپ کو بدنام کرنے کی خاطر جمع کی تھیں *۔ حل لغات :۔ وطراً ۔ حاجت ۔ ضرورت * قدرا مقدورا ۔ طے شدہ بات *۔