كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
(لوگو!) تم اللہ کا انکار کیسے کرتے ہو۔ حالانکہ تم مردہ (معدوم) تھے تو اس نے تمہیں زندہ کیا۔ پھر وہی تمہیں موت دے گا، پھر زندہ کر دے گا۔[٣٦] پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے
(ف ٢) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ زبان سے تو اللہ تعالیٰ کا انکار کیا جا سکتا ہے ، مگر حقیقتا انکار ممکن نہیں ، جب تک موت وحیات کا ہمہ گیر قانون موجود ہے اور فنا وزیست کے واقعات سے بہرحال مفر نہیں ‘ اس وقت تک ایک زبردست حی وقیوم خدا پر ایمان ضروری ہے ۔ پھر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کائنات کی تمام چیزیں انسان کے لئے پیدا کی گئی ہیں ، آفتاب سے لے کر ذرہ تک اور ذرہ سے پہاڑ تک سب اسی کے لئے زندہ ومصروف عمل ہیں ، تو ہمیں واشگاف طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ اس سارے نظام آفادہ کے پس پردہ کوئی رحمن ورحیم کرم فرما ہے ۔ (آیت) ” خلق لکم ما فی الارض جمیعا “۔ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان ساری کائنات کا مخدوم و مقصد ہے ۔