وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِم مِّنْ أَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لَآتَوْهَا وَمَا تَلَبَّثُوا بِهَا إِلَّا يَسِيرًا
اور اگر کفار کے لشکر اطراف مدینہ سے ان پر چڑھ آتے اور انھیں فتنہ کی دعوت دیتے تو یہ منافق فوراً مان لیتے اور اس میں کچھ زیادہ [١٩] دیر نہ کرتے
دنیوی زندگی عارضی ہے ف 2: فرمایا ہے کہ اگر تم ازراہ بزل بھاگ جاؤ گے ۔ تو پھر کیا ہوگا کیا ہمیشہ ہمیشہ تم زندہ رہو گے ۔ کیا پھر کبھی نہیں مرو گے ۔ کیا تم یہ سوچتے ۔ کہ یہ زندگی بظاہر طویل نظر آنے کے بہت کوتاہ اور قصیر ہے ۔ موت کا ایک دن مقدر اور معین ہے پھر جب ہر صورت میں مرنا ہے تو ان چند دنوں کی عارضی زندگی کو کیوں ٹھکراتے ہو ۔ عاجل کا نفع تمہارے سامنے ہے ۔ اور آجل کی بہرہ اندوزی سے محروم ہو ۔ یہ کہاں کی عقل مندی اور دانائی ہے کہ حیات چند روزہ کے عرض ابدی زندگی کو بیج ڈالا جائے ۔