وَقَالُوا أَإِذَا ضَلَلْنَا فِي الْأَرْضِ أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۚ بَلْ هُم بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ كَافِرُونَ
یہ لوگ کہتے ہیں کہ : جب ہم مٹی میں رل مل جائیں گے تو کیا ازسر نو پیدا کئے جائیں گے؟'' حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات [١١] ہی کے منکر ہیں
ف 1: جب یہ مجرم سرجھکائے ہوئے اللہ کے حضور میں پیش ہونگے اس وقت انہیں احساس ہوگا ۔ کہ ہم نے خدا کی نافرمانی کرکے بہت بڑے ظلم کا ارتکاب کیا ۔ اس لئے وہ خواہش کریں گے کہ خدایا ہمیں ایک بار اور دنیا میں جانے کا موقع دیا جائے ۔ پھر دیکھئے کہ کس طرح ہم تیرے نیک اور پاک باز بندے بن جاتے ہیں ۔ جواب ملے گا کہ کائنات کا نظام پہلے سے مقدر اور متعین ہے ۔ اس میں کوئی ترمیم اور تنسیخ نہیں ہوسکتی اگر منظور ہوتا کہ کوئی شخص گمراہ نہ ہو ۔ تو ہم سب کو دنیا ہی میں ہدایت سے بہرور کردیتے ۔ مگر ایسا نہیں ہے ۔ اس دنیا کی زینت کا اختلاف اور بوقلمونی سے ہے جب میں نے کہہ دیا تھا ۔ کہ جو شخص شیطان کی پیروی کرے گا ۔ وہ ضرور جہنم میں جائے گا ۔ لاملئن جھنم منک و ممن تبعک تو اس قول کو پورا ہونا چاہیے ۔ اور بقضائے انصاف تم لوگوں کو جہنم میں جانا چاہیے ۔ جاؤ۔ اور جہنم کا عذاب چکھو ۔ تم نے دنیا میں ہمیں بھلا رکھا تھا ۔ آج ہم تم سے اس طرح کا معاملہ کریں گے ۔ کہ گویا ہم تم کو بھول گئے ہیں *۔ ف 2: ان آیتوں میں صحابہ کرام کے مرتبہ ایمان کا ذکر ہے ۔ کہ کیونکر وہ خدا کے احکام سن کر کس طرح ان پر رقت طاری ہوجاتی ہے ۔ یہ کہ اس محبت کا تذکرہ ہے ۔ جو ان کو خدا کے ساتھ ہے ۔ کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر مولا کی یاد میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ ان کے پہلو خواب گاہوں سے جدا رہتے ہیں ۔ خدا سے ڈرتے ہیں ۔ اور اس کی رحمتوں کے امیدوار رہتے ہیں ۔ اور جو کچھ خدا نے انہیں دے رکھا ہے ۔ اس کو اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں *۔