أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۚ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ
کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ اس (نبی) نے اس (قرآن) کو خود ہی گھڑ لیا ہے (بات یوں نہیں) بلکہ یہ آپ کے پروردگار [١۔ الف] کی طرف سے حق ہے۔ تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا [٢]۔ شاید وہ ہدایت [٣] پاجائیں
ف 1: سورۃ لقمان میں زیادہ تر توحید کے مسائل کو بیان فرمایا تھا ۔ سورۃ سجدہ کا آغاز رسالت سے کیا ہے ۔ ارشاد ہے کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہے ۔ غیر مشکوک ہے ۔ اس میں وہ تخیل ہے ۔ جو بتلانا ہے ۔ کہ اس کو بھیجنے والا تمام کائنات انسانی کا رب ہے ۔ اس میں ہر ذوق اور ہر قابلیت کے انسان کو مخاطب کیا گیا ہے ۔ اس میں ہر ملک اور ہر قوم کے لئے برابر برکات اور سعادتیں ہیں ۔ یہ ہر زمانے میں لوگوں کی راہ نمائی کرتی ہے ۔ اس لئے اس کے متعلق یہ ظن کہ شاید یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا افتراء ہو ۔ محض سوء ظن ہے ۔ یہ حق وصداقت ہے ۔ واقعات اور فطرت کے مطابق ہے ۔ اور عقل ودانش کے قرین ہے *۔ ما اتھم من نذیر سے مراد یہ نہیں ہے کہ قریش مکہ پہلے کسی پیغام سے آشنا نہیں تھے ۔ اور پہلی دفعہ انہوں نے سچائی کی آواز کو سنا ۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان کی گمراہی کے بعد یہ موقع ہے ۔ کہ انہیں رشدوہدایت سے نوازا گیا ہے ۔ اور ان میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تبلیغ واشاعت کے لئے بھیجا ہے *۔