سورة السجدة - آیت 3

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۚ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ اس (نبی) نے اس (قرآن) کو خود ہی گھڑ لیا ہے (بات یوں نہیں) بلکہ یہ آپ کے پروردگار [١۔ الف] کی طرف سے حق ہے۔ تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا [٢]۔ شاید وہ ہدایت [٣] پاجائیں

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 1: سورۃ لقمان میں زیادہ تر توحید کے مسائل کو بیان فرمایا تھا ۔ سورۃ سجدہ کا آغاز رسالت سے کیا ہے ۔ ارشاد ہے کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہے ۔ غیر مشکوک ہے ۔ اس میں وہ تخیل ہے ۔ جو بتلانا ہے ۔ کہ اس کو بھیجنے والا تمام کائنات انسانی کا رب ہے ۔ اس میں ہر ذوق اور ہر قابلیت کے انسان کو مخاطب کیا گیا ہے ۔ اس میں ہر ملک اور ہر قوم کے لئے برابر برکات اور سعادتیں ہیں ۔ یہ ہر زمانے میں لوگوں کی راہ نمائی کرتی ہے ۔ اس لئے اس کے متعلق یہ ظن کہ شاید یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا افتراء ہو ۔ محض سوء ظن ہے ۔ یہ حق وصداقت ہے ۔ واقعات اور فطرت کے مطابق ہے ۔ اور عقل ودانش کے قرین ہے *۔ ما اتھم من نذیر سے مراد یہ نہیں ہے کہ قریش مکہ پہلے کسی پیغام سے آشنا نہیں تھے ۔ اور پہلی دفعہ انہوں نے سچائی کی آواز کو سنا ۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان کی گمراہی کے بعد یہ موقع ہے ۔ کہ انہیں رشدوہدایت سے نوازا گیا ہے ۔ اور ان میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تبلیغ واشاعت کے لئے بھیجا ہے *۔