وَمَن كَفَرَ فَلَا يَحْزُنكَ كُفْرُهُ ۚ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ فَنُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
اور جس نے کفر کیا تو اس کا کفر آپ کو غمزدہ نہ کردے [٣١]۔ انھیں ہماری طرف ہی آنا ہے پھر ہم انھیں بتا دیں گے جو کچھ وہ کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ تو یقیناً دلوں کے راز تک جانتا ہے
عروۃ الوثقیٰ ف 2: اس سے قبل کی آیات میں فرمایا تھا ۔ کہ جو شخص فکر خیال سے لے کر حرکت وعمل تک سب چیزوں کو بر بنائے اخلاص وعقیدت اللہ کے تابع کردیتا ہے ۔ وہ عقائد کے مضبوط ترین حلقے کو تھام لیتا ہے ۔ اس مقام بلند پر فائز ہونے کے بعد اس کے لئے رسوائی اور ضلالت کا کوئی اندیشہ باقی نہیں رہتا ۔ جو شخص یہ سمجھ لے کہ میری سمجھ بوجھ میرے جذبات اور میری خواہشات نفس سب کی سب اللہ کے ارادہ اور اس کی منشاء کے ماتحت ہیں ۔ اس کی رضا میں میری نجات ہے اس کی خوشی میری زندگی کا نصب العین ہے ۔ اور اس کی مرضی پر میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوں ۔ ایسا شخص فکروعقیدہ کی ایسی مضبوط چٹان پر کھڑا ہے کہ تزلزل کا کوئی مکان ہی باقی نہیں رہتا ۔ اور اس کے برخلاف جس کو اپنی عقل پر ناز ہے جس کی خواہشات نفس اس پر مسلط ہیں ۔ جو اللہ کے حکموں کی پرواہ نہیں کرتا ! اور حقائق کا منکر ہے ۔ وہ گمراہ ہے ۔ ان آیتوں میں فرمایا ہے ۔ کہ ایسے آدمی کے لئے آپ کیوں دکھ برداشت کریں ۔ وہ شخص جو عمداً ہدایت بےاعراض کرتا ہے قطعاً آپ کی شفقتوں کا مستحق نہیں ہے ان کے لئے ذرہ برابر فکر مند نہ ہوں ۔ فلا یحن نک کفرۃ سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالطیع کفر سے منتفر تھے اور آپ کو بڑی کوفت معلوم ہوتی تھی ۔ جب کوئی شخص اپنے لئے گمراہی کو پسند کرلیتا تھا ۔ آپ کے دل میں اس درجہ انسانیت سے ہمدردی تھی کہ آپ مخالفین کو بھی غلط راستے پر دیکھ کر بےقرار ہوجاتے تھے ۔ دل سے چاہتے تھے ۔ کہ وہ کفر کو چھوڑ رشدوہدایت کی برکتوں کامل ہوجائے ۔ فرمایا ہے کہ ان سب لوگوں کو ہمارے پاس آنا ہے ۔ انہیں بتائیں گے کہ انہوں نے کیا کیا کارہائے نمایاں دنیا میں کئے ہیں ۔ ہم ان کے تمام اسرار سے آگاہ ہیں ۔ ان کو دنیا میں تو موقع دینگے وہاں کی نعمتوں سے بہرہ مند ہولیں ۔ مگر بالآخر ان کے لئے عذاب مقدر ہے *۔ حل لغات :۔ بالعروہ ۔ ہر چیزکا کنارہ اور راستہ *۔