وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
اور (یاد کرو) جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا کہ : ’’پیارے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک [١٥] نہ بنانا، کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘
سب سے پہلے جس چیز کو حضرت لقمان نے قابل اعتناء سمجھا ہے ۔ وہ مسئلہ توحید ہے ۔ اس لئے اپنے بیٹے سے یہی کہتے ہیں ۔ کہ دیکھو اس سے بڑھ کر انسانیت کی اور حق تلفی نہیں ہوسکتی کہ انسان اپنی فطری عظمت کھوبیٹھے ۔ اور اپنے ابنائے جنس کے سامنے جھکے ۔ یاس مخلوق کے سامنے سربسجود ہو ۔ جو مرتبہ کے لحاظ سے اس سے کہیں فروتر ہے ۔ یہ شرک ہے ۔ ظلم عظیم ہے ۔ اور بہت بڑا گناہ اس کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین فرمائی ہے ۔ کیونکہ کنبے بھر میں یہ رشتہ سب سے زیادہ محترم ہے ۔ اور سب سے زیادہ جاذب توجہ ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ ان بزرگ ترین افراد کی عزت وحرمت اس لئے ضروری ہے ۔ تاکہ جذبہ ربوبیت کو ہم چھوٹے پیمانے پر والدین کی شفقتوں میں دیکھ سکیں اور اس سے اندازہ کرسکیں ۔ کہ وہ ربوبیت کبریٰ کس درجہ ہم پر مہربان ہوگی ۔ جس کا یہ ادنیٰ کرشمہ ہے ۔ والدین کے احترام کے ساتھ اس چیز کی تصریح فرمادی ہے ۔ کہ یہ احترام اسی حدتک واجب ہے ۔ جس حد تک اللہ کے احکام کی نافرمانی نہیں ہوتی لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق ۔ اور جہاں یہ والدین اپنی بزرگی کا ناجائز استعمال کرنا چاہیں اور اپنے بچوں کو شرک وبدعات پر مجبور کریں ۔ اس وقت سعادت مندی یہ ہے کہ وہ بچے صاف طور پر انکار کردیں ۔ کیونکہ حق اور صداقت تمام تعلقات سے زیادہ واجب الاحترام ہے *۔ تیسری بات حضرت لقمان نے جو اپنے بیٹے کو بتائی ۔ وہ یہ ہے کہ عمل کبھی ضائع نہیں ہوتا ۔ حقیر سے حقیر اقدام ۔ اور ادنیٰ سے ادنیٰ حرکت بھی نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہے اور اللہ کا علم کامل ہے ۔ کوئی شخص اسے دھوکہ نہیں دے سکتا *۔ عزیمت واستقامت