سورة الروم - آیت 45

لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِن فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے انھیں اپنی مہربانی [٥٣] سے اس کا بدلہ دے۔ وہ یقینا کافروں کو پسند نہیں کرتا۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

خدا انسان کا حریف نہیں ہے (ف 1)ان آیتوں میں بتایا ہے کہ جہاں تک کفر وانکار کا تعلق ہے اس سے ذات عمدیت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ۔ اسی طرح ایمان واعمال صالح سے اس کی جلالت قدر میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا ۔ اگر ساری دنیا کفر وطغیان کو اپنا شیوہ بنا لے ۔ اور برملا خدا کا انکار کردے ۔ تو اس کے وجود باجود میں اور اس کے تحقق قومیت میں ذرہ برابر فرق نہیں ہوتا ۔ اسی طرح اگر دنیا میں کوئی منکر نہ رہے تمام ملحد اپنے غلط عقائد سے توبہ کرلیں ۔ اور مومن صادق بن جائیں ۔ اور زہد وورع کا لباس زیب تن کرلیں ۔ تو اس کی عظمت اور رفعت میں کچھ بھی ترقی نہیں ہوتی ۔ یہ کفروعصیاں تو محض اس لئے مذموم ہے کہ اس سے خود انسان کو دکھ پہنچتا ہے ۔ یہ تمدن صالحہ کے لئے سخت مضر ہے ۔ اور اس کی وجہ سے نوع انسانی اپنے مقام روحانی سے گر کر حیوانیت کے اسفل گڑھوں میں جاپڑتی ہے کفر چونکہ سراسر فسادواختلال ہے ۔ کون ومکان کے لئے اس کا وجود باعث لعنت ہے ۔ اس لئے اس سے پرہیز لازم ہے ۔ ورنہ منکر اور خدائے برتر وغالب کے لئے کس طرح حریف بن سکتے ہیں اسی طرح نیکی اور تقویٰ اس کے لائق اعتناء ہیں کہ ان سے روح انسان میں جلا پیدا ہوتی ہے ۔ ان سے اخلاق سنورتے ہیں اور خود انسانیت بلند ترین روحانی مقامات پر ممکن ہوتی ہے ۔ ورنہ اس ذات بےنیاز کو ہمارے تقوے اور پرہیزگاری کی کیا ضرورت ہے ! ﴿إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ﴾سے غرض یہ ہے کہ گو وہ باعتبار تکوین کے کافروں اور منکروں سے تعرض نہیں کرتا ۔ اور ان کے افعال واعمال میں مزاحم نہیں ہوتا مگر اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ ان کے اعمال کو پسند بھی کرتا ہے اور وہ ان کو باوجود سرکشیوں کے محبوب بھی رکھتا ہے ۔ کائنات کی مصالح کا تقاضا ہے کہ منکر کو انکار میں اور مومن کو ایمان میں پوری پوری آزادی بخشی جائے اس لئے وہ برائی کی طرف بڑھنے والوں کو روک تو نہیں دیتا ہے مگر اس کی خواہش یہی ہے کہ اس کے بندے کفر سے بچیں اور ایمان وتقویٰ کی دعوت کو قبول کریں ۔