سورة الروم - آیت 36

وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوا بِهَا ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جب ہم انھیں اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو یہ اترانے [٤٠] لگتے ہیں۔ اور جب ان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے انھیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو آس توڑ بیٹھتے ہیں۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 1: ان آیات میں انسانی نفسیات بیان فرمائی ہیں ۔ کہ کیونکر وہ حالات کے عدم توازن سے اپنے دماغی توازن کو کھوبیٹھتا ہے اور یہ نہیں سمجھتا کہ یہ سب انقلابات اللہ کی طرف سے ہیں ۔ اور ناگریز ہیں جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے ۔ تو پھر خلوص قلب کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکتا ہے ! اور رو رو کر دعائیں مانگتا ہے اور اللہ کی رحمت وشفقت سے دوچار ہوتا ہے ۔ تو پھر اللہ کے ساتھ اپنی کوششوں اور نتائج کو شریک و سہیم ٹھہرا لیتا ہے ۔ حالانکہ یہ کفر ہے ۔ اور اس کے لئے کوئی دلیل نہیں ۔ پھر زندگی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسرت میں یہ انسان بہت خوش ہوتا ہے ۔ اور تکلیف میں جو سراسر ان کے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ مایوس ہوجاتا ہے ۔ حالانکہ نہ مسرت میں آپے سے باہر ہونے کی ضرورت ہے اور نہ تکلیف میں مایوس ہونے کی حاجت ، رزق کی کشائش اور آسودگی یکسر اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ وہ جس شخص کو جب چاہتا ہے ۔ دولت سے نواز دیتا ہے ۔ اور جب چاہتا ہے ۔ بڑوں بڑوں کو افلاس اور حسرت کی زندگی پر مجبور کردیتا ہے ۔ اس لئے مرد مومن کا فرض یہ ہے کہ وہ حالات کی مساعدت اور نامور فقت سے بالکل بےنیاز ہوجائے اور ہر حالت میں اللہ کا شاکررہے ۔ ع ۔ (پورے ہیں وہی مروجوہرحال میں خوش ہیں) حل لغات :۔ یقنطون ۔ قنوط سے ہے ۔ مایوسی ، بددل 'زکوٰۃ یہاں عام صدقات کے معنوں میں ہے *۔