وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ ۚ وَلَهُ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اور وہی تو ہے جو خلقت کی ابتدا کرتا ہے پھر [٢٦] وہی اس کا اعادہ کرے گا اور یہ (دوسری بار کی پیدائش) اس پر زیا دہ آسان ہے۔ آسمانوں اور زمین [٢٧] میں اسی کی شان بالاتر ہے اور وہ سب پر غالب اور حکمت والا ہے۔
﴿الْمَثَلُ الْأَعْلَى﴾ (ف 1)اس آیت میں دراصل مشرکین مکہ کو مخاطب کیا گیا ہے ۔ جو حشر ونشر کے منکر تھے اور یہ نہیں مانتے تھے کہ مرنے کے بعد پھر دوبارہ زندگی حاصل کرینگے ارشاد ہے کہ یہ بتاؤ جب تم اس حد تک تسلیم کرتے ہو کہ ابتدا تمام کائنات کو اللہ نے پیدا کیا ہے ۔ اور یہ بھی مانتے ہو کہ جب یہ چیزیں پیدا کی گئی ہیں اس وقت کوئی دوسری ذات اس کے شریک وسہیم میں نہ تھی تو پھر مان لینے میں کوئی تامل ہے کہ وہ دوبارہ بھی ایسا کرسکتا ہے ۔ کیا ایک ہی چیز کو دوبارہ پیدا کرنا نسبتاً زیادہ آسان نہیں ہے ﴿وَلَهُ الْمَثَلُ الْأَعْلَى﴾کہنے سے غرض یہ ہے کہ یہ تمہیں سمجھانے کے لئے ہم کہتے ہیں کہ کائنات انسانی کو دوبارہ پیدا کرنا ہمارے لئے نسبتاً زیادہ سہل ہے۔ ورنہ یہاں بات ہی نہیں صرف ارادہ کی ضرورت ہے ۔ جب جس چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ ہوا ۔ وہ فی الفور عدم سے وجود میں آئی ۔ مقصد یہ ہے کہ کسی چیز کو منصہ شہود پر لانے کے لئے منطقی طور پر جن وسائل اور ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے خدا ان کا محتاج نہیں ہے وہ براہ راست ہر چیز کو بمجرد ارادہ کے پیدا کرسکتا ہے ۔ اور یہ ارادہ بھی کوئی جدید اور الگ چیز نہیں ۔ اس کے علم کا ایک عملی پہلو ہے ۔