وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اور ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لیے بیویاں [١٨] پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں کئی نشانیاں ہیں
فلسفہ ازدواج (ف 2)قرآن حکیم میں یہ عجیب خصوصیت ہے کہ وہ نہایت اختصار کے ساتھ بعض دفعہ اشاروں اشاروں میں وہ وہ نکات سمجھا دیتا ہے کہ عقل وفراست کے کئی دفتر بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ غور فرمائیے معاشرتی صورت حال میں یہ کتنا اہم مسئلہ ہے کہ عورت کا درجہ ازدواجی نقطہ نگاہ سے کیا ہے ؟ اور کیونکر زندگی کو خوشگوار بنایا جاسکتا ہے ؟ قرآن کہتا ہے کہ ان تعلقات سے مقصود جنسی اور معاشرتی تسکین ہے ۔ قلب وروح کی ضمانت ہے ﴿لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا﴾ اور اس کو صحیح معنوں میں خوشگوار بنانے کا طریق یہ ہے کہ دونوں فریقین برابر کی ذمہ داری کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوں ۔ مرد اپنی قوت وتوانائی سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں ۔ او رعورت کے حق میں ہمیشہ رحمت وشفقت سے کام لیں ۔ اور عورت اپنے حسن وجمال پر مغرور نہ ہو ۔ بلکہ خاوند کے لئے اپنے دل میں محبت و مودت کے جذبات کی تربیت کرے ﴿ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَة ﴾ اس ایک آیت میں قرآن نے معجزانہ طریق سے فلسفہ معاشرت کا ایک سمندر بند کردیا ہے ۔ مقام اور منصب کا تعین فرمایا ہے کہ عورت سکون وطمانیت آفریت شخصیت ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ اس سکون کو کیونکر عمل زندگی میں پیدا کیا جاتا ہے ۔ اسی لئے ارشاد ہے کہ ان باتوں میں سوچنے اور غور کرنے والوں کے لئے کئی نشانیاں ہیں ۔ ﴿لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ﴾