سورة الروم - آیت 21

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لیے بیویاں [١٨] پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں کئی نشانیاں ہیں

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

فلسفہ ازدواج ف 2: قرآن حکیم میں یہ عجیب خصوصیت ہے ۔ کہ وہ نہایت اختصار کے ساتھ بعض دفعہ اشاروں اشاروں میں وہ وہ نکات سمجھا دیتا ہے ۔ کہعقل وفراست کے کئی دفتر بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ غور فرمائیے ۔ معاشرتی صورت حال میں یہ کتنا اہم مسئلہ ہے ۔ کہ عورت کا درجہ ازدواجی نقطہ نگاہ سے کیا ہے ؟ اور کیونکر زندگی کو خوشگوار بنایا جاسکتا ہے ؟ قرآن کہتا ہے ۔ کہ ان تعلقات سے مقصود جنسی اور معاشرتی تسکین ہے ۔ قلب وروح کی ضمانیت ہے ۔ لتسکنوا الیھا اور اس کو صحیح معنوں میں خوشگوار بنانے کا طریق یہ ہے کہ دونوں فریقین برابر کی ذمہ داری کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوں ۔ مرد اپنی قوت وتوانائی سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں ۔ او عورت کے حق میں ہمیشہ رحمت وشفقت سے کام لیں ۔ اور عورت اپنے حسن وجمال پر مغرور نہ ہو ۔ بلکہ خاوند کے لئے اپنے دل میں محبت و مودت کے جذبات کی تربیت کرے ۔ وجعل بینکم موزۃ ورحمۃ *۔ اس ایک آیت میں قرآن نے معجزانہ طریق سے فلسفہ معاشرت کا ایک سمندر بند کردیا ہے ۔ مقام اور منصب کا تعین فرمایا ہے ۔ کہ عورت سکون وطمانیت آفریت شخصیت ہے اور یہ بھی بتایا ہے ۔ کہ اس سکون کو کیونکر عمل زندگی میں پیدا کیا جاتا ہے ۔ اسی لئے ارشاد ہے کہ ان باتوں میں سوچنے اور غور کرنے والوں کے لئے کئی نشانیاں ہیں ۔ لا یت لقوم تنظرون *