سورة آل عمران - آیت 46

وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

وہ لوگوں سے گہوارے [٤٧] میں بھی کلام کرے گا اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی اور بڑا نیک سیرت ہوگا‘‘

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) اس آیت میں حضرت مریم علیہا السلام کو خوشخبری سنائی ہے کہ تیرا بیٹا اللہ کا نبی ہوگا اور اس کا کام لوگوں کی اصلاح وتربیت ہوگا ۔ جھولے میں گفتگو کرنے کا مطلب وہ نہیں جو بعض قرآن نا آشنا لوگوں نے سمجھا ہے کہ وہ معمولی اور عادی گفتگو ہے ، اس لئے کہ مقام بشارت میں اس کا ذکر خصوصیت فاضلہ چاہتا ہے اور پھر ” الناس “ کی طرف تکلم کا انتساب متقاضی ہے کہ اس سے مراد وہ گفتگو ہو جس کا تعلق منصب اصلاح ورشد سے ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کے علاوہ تین اور بچوں نے بھی بچپن میں باقاعدہ گفتگو کی ہے ، شاہد یوسف ، صاحب جریج اور ماشتہ صاحب فرعون نے ، بات یہ ہے کہ انبیاء فطرۃ ملکہ نبوت لے کر پیدا ہوتے ہیں ابتدا ہی سے ان کے دلوں میں نبوت کے انوار روشن رہتے ہیں اور حسب موقع ان کا اظہار ہوتا ہے ۔ کھلا سے مراد یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کی عمر تا بکہولت پہنچے گی اور وہ عمر کے آخری لمحوں میں بھی تبلیغ واشاعت میں مصروف رہیں گے ۔ حل لغات : المھد : گہوارہ ۔ اخلق : مادہ ومصدر خلق ، بنانا ۔ ھیئۃ : صورت ۔