إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَىٰ فَبَغَىٰ عَلَيْهِمْ ۖ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَحْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ
بلاشبہ قارون موسیٰ کی قوم (بنی اسرائیل) سے تھا : پھر وہ اپنی قوم کے خلاف ہوگیا (اور دشمن قوم سے مل گیا) اور ہم نے اسے اتنے خزانے دیئے تھے جن کی چابیاں ایک طاقتور جماعت بمشکل اٹھا سکتی تھی۔ [١٠١] ایک دفعہ اس کی قوم کے لوگوں نے اس سے کہا'': اتنا اتراؤ نہیں'' [١٠٢] اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
قارون (ف 2) یہ آیات قارون کے متعلق ہیں اس میں یہ بتایا ہے کہ انسان بعض دفعہ مال ودولت کے نشہ میں کس درجہ سرشار ہوجاتا ہے اور تمام انسانی حقوق کو بھول جاتا ہے اور یہ سمجھنے لگتا ہے کہ عیش وعشرت کی یہ فراوانی اللہ کے فضل اور بخشش کا نتیجہ نہیں ہے ۔ بلکہ میری اپنی قوت بازو کا ثمرہ ہے ۔ اور میری عقل وفراست کا پھل ہے ۔ اس لئے میرے مال ودولت میں خدا کا کوئی حصہ نہیں اس قسم کے لوگ عموماً کم ظرف ہوتے ہیں عالی حوصلہ اور بلند مقام لوگ باوجود تمول کے منکسر ہوتے ہیں اور بڑی فراخدلی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ۔قارون کی شخصیت کے متعلق مفصل معلوم نہیں کہ کون تھا ۔ مفسرین نے مختلف قیاس آرائیاں کی ہیں ۔ بعض کے نزدیک موسیٰ کے چچا زاد بھائیوں میں سے تھا ۔ اور بعض کے نزدیک چچا تھا ۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ موسیٰ کا خالہ زاد بھائی تھا ۔ بہرحال قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی تھا ۔ اور موسیٰ کی قوم میں سے تھا اللہ نے اس کو خوش حالی بخشی ۔ مال ودولت سے نوازا اور بےانتہاخزائن ووفائن کا مالک بنایا ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یہ اللہ کی ان بخششوں کا شکر ادا کرتا ۔ اور مخلوق خدا سے نہایت انکسار وعجز سے پیش آتا ۔ مگر یہ لگا اکڑنے اور اترانے ۔ قوم نے کہا ۔ دیکھو بہت زیادہ غرور اور تمکنت اچھی نہیں ۔ اپنے جامے میں رہو کیونکہ اللہ کو ایسی حرکتیں پسند نہیں ہیں ۔ مال ودولت میں سے کچھ آخرت لئے بھی خرچ کرو ۔ اور دنیا میں خدا کو نہ بھولو کہ آخرت میں خسارہ اٹھاؤ۔ لوگوں سے بھلائی کے ساتھ پیش آؤ۔ جس طرح کہ اللہ نے تمہارے ساتھ بھلائی کی ہے ۔ اور غرورو کبر سے ملک میں فساد نہ مچاتے پھرو ۔قارون نے جب یہ نصیحتیں سنیں تو ازراہ عجب وتکبر کہنے لگا اپنے وعظ کو رہنے دو میرے مال میں اللہ کی بخششوں کو کوئی دخل نہیں ۔ میں نے جو کچھ حاصل کیا ہے ۔ اپنی قابلیت سے حاصل کیا ہے فرمایا اس کمبخت کو معلوم نہیں کہ اس سے قبل کئی قوموں کو اللہ تعالیٰ ان کے غرور اور دنیاپرستی کی وجہ سے ہلاک کرچکا ہے ۔ اور وہ قومیں دولت وقوت میں، اعوان وانصار میں اس سے کہیں بڑھی ہوئی تھیں ۔ یہ اپنے تھوڑے سے مال پر اترارہا ہے اور یہاں چشم زدن میں زندگی کی تمام لذتیں چھین لی جاتی ہیں اور پوچھا تک نہیں جاتا یہ گو ایک مخصوص واقعہ ہے ۔ مگر مقصد یہ ہے کہ دولت مندوں کو عیش وعشرت میں مصروف دیکھ کر عموماً کمزور طبیعت کے دنیا دار بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھئے تو یہ لوگ کس درجہ خوش قسمت ہیں ۔ مگراہل علم وعقل محض جاہ وثروت کے نظاروں سے فریب میں نہیں آتے ان کی نگاہیں عاقبت پر لگی ہوتی ہیں ۔ وہ ان ضعیف الایمان لوگوں سے کہتے ہیں کہ تم دنیا کو کیوں للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہو ۔ آخرت کی طرف دھیان رکھو کہ وہ ایمان داروں کے لئے کہیں بہتر ہے ۔ اور یاد رکھو عقبی کا اجر صرف صبر کرنے والوں ہی کو ملے گا ۔ افلاس وغربت سے گھبراجانے والوں کو نہیں ۔حل لغات : الْكُنُوزِ۔ کنز کی جمع ہے ۔ یعنی خزانہ مفاتحہ ۔ مفاتح جمع ہے مِفتح اور مَفتح کی ۔ مفتح بالکسر کے معنی کنجی کے ہیں ۔ اور مفتح با لفتح کے معنی خزانہ ۔ لَا تَفْرَحْ: یعنی جامے سے باہر نہ ہو ، اترا نہیں ۔