وَمِن رَّحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لئے رات اور دن [٩٨] بنائے تاکہ تم (رات کو) اور دن کو اس کا فضل تلاش کرسکو۔ (اگر سوچو) تو شاید تم اس کے شکرگزار بن جاؤ
ایک واضح حقیقت ف 1: یہ بالکل سادہ اور واضح حقیقت ہے ۔ کہ تمام اختیارات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ۔ مگر اتنی سی بات بھی مشرکوں کے دماغ میں نہیں آتی ۔ اور وہ اس کے سوا دوسروں کو اپنا معبود بنالیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کائنأت کانظم ونسق ان کے ہاتھ میں ہے * ارشاد ہے کہ کیا تم نے کبھی اپنے معبودوں کی قوتوں کا جائزہ بھی لینے کی کوشش کی ! کیا کبھی تم نے سوچا ہے کہ وہ کن اختیارات کے مالک ہیں ؟ اور کیا ان کی بےچارگی اور عجز پر بھی تم نے نظر کی ، بتاؤ کہ اگر آفتاب اور ماہتاب کا پیدا کرنے والا خدا ان کو روک لے اور آفات کو غروب نہ ہونے دے ۔ تو پھر یہ تمہارے خدا اور تمہارے مزعومہ معبود کیا تمہارے لئے پر سکون رات کا بندوبست کرسکتے ہیں ؟ یہ تو اس کی رحمت ونوازش ہے کہ اس نے لیل ونہار کے ادوار کو باقی رکھا ۔ تاکہ رات کو تم آرام کرو اور دن بھر کی تکان دور کرو ۔ اور دن میں معاش ڈھونڈو مگر تم ہو کہ ان حقائق پر غور نہیں کرتے ۔ اور نہ اللہ کی نعمتوں کا شکرادا کرتے ہو ۔ ولتبتغوا من فضلہ ۔ کہہ کر اس حقیقت کے چہرہ سے پردہ اٹھا دیا ہے کہ مال ودولت کا حصول تقویٰ اور پرہیز گاری کے منافی نہیں ۔ بلکہ اللہ کے فضل کا اکتساب ہے ۔ افلاس فی نفسہ اسلامی نقطہ نگاہ سے کوئی بہتر چیز نہیں ہے ۔ بلکہ بعض حالات میں نہایت مذموم ہے ۔ ہاں طبیعت کی مسکنت اللہ کو پسند ہے ۔ اور کبروغرور ناپسند ممکن ہے کہ ایک دولت مند آدمی طبیعت کا نہایت غریب ہو اور ایک مفلس ونادار بہت متکبر اور مغرور ہو ۔ اس لئے اصل چیز اخلاق کے باب میں توانگری اور افلاس نہیں ۔ بلکہ دل کا غنا اور دل کی مسکنت ہے *