وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَىٰ حَتَّىٰ يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا ۚ وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَىٰ إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ
اور آپ کا پروردگار کسی بستی کو ہلاک نہیں کرتا تاآنکہ کسی مرکزی بستی میں [٨٢] رسول نہ بھیج لے، جو انھیں ہماری آیات پڑھ کر سناتے نیز ہم صرف ایسی بستی کو ہی ہلاک کرتے ہیں جس کے رہنے والے ظالم ہوں۔
ابتلا اور عذاب میں منطقی فرق (ف 1) آیت کا مطلب بالکل واضح ہے کہ عذاب الٰہی سے پیشتر تمام حجت کے طور پر انبیاء کا آنا ضروری ہے ۔ مگر بعض اہل زیغ نے اس کے معنی یہ سمجھے ہیں کہ ہر مصیبت اور ہرا بتلاء سے قبل لازمی ہے کہ ایک پیغمبر فرض کرلیاجائے ۔ اور اس مصیبت یا ابتلاء کو اس کے انکار کا نتیجہ ٹھہرایا جائے ۔ اس مفہوم کے پیش کرنے میں ایک دھوکہ یہ بھی ہے کہ ہر مصیبت کو عذاب کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے حالانکہ ان دونوں میں منطقی لحاظ سے عموم وخصوص مطلق ہے یعنی ہر عذاب تو یقینا مصیبت ہے مگر ہر مصیبت عذاب نہیں ۔ بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ نیک بندوں کے لئے بمنزلہ آزمائش کے ہو ۔ اور بس ﴿فِي أُمِّهَا رَسُولًا ﴾سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء ہمیشہ مرکزی شہروں میں آتے ہیں دیہات میں نہیں ﴿إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ ﴾سے مراد یہ ہے کہ عذاب اس وقت تک نہیں آتا جب تک کہ ظلم اور عصیان کثرت سے نہ پھیل جائے ۔حل لغات : الْقُرَى ۔ قریب کی جمع ہے شہر گاؤں بستی۔