إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
(اے نبی)! جسے آپ چاہیں اسے ہدایت [٧٦] نہیں دے سکتے، اللہ ہی ہے جو جس کو چاہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں [٧٧] کو خوب جانتا ہے۔
ف 2: اہل کتاب کے اس صفت شعار گروہ کے ساتھ ایک ایسی جماعت بھی تھی ۔ جو قرآن کی روشنی سے دلوں کی ظلمتوں کو دور کرنا چاہتی تھی ۔ اور حضور کی یہ انتہائی خواہش تھی کہ لوگ بھی اسلام کی ضیاباریوں سے دماغوں کو منور کرلیں قرآن نے کہا ۔ اور آپ ہدایت کی جانب دعوت دے سکتے ہیں اور یہ کرسکتے ہیں ۔ کہ صبح وشام انہیں ان کے اعمال بد کے نتائج سے آگاہ کرتے رہیں ۔ مگر توفیق ہدایت آپ کے بس کی بات نہیں ۔ یہ آپ کے اختیار سے باہر ہے ۔ کہ جس کو چاہیں دائرہ فلاں و فوز میں شامل کرلیں ۔ اور اس کے سینے کو حق وصداقت کے لئے کھول دیں ۔ مفسرین کی رائے ہے ۔ کہ یہ آیت عام نہیں ہے ۔ بلکہ ابوطالب سے متعلق ہے ۔ کہ ہرچند حضور نے ان سے کہا ۔ چچا ایک دفعہ تو میرے سامنے توحید ورسالت کی گواہی دے دیجئے مگر انہوں نے جانتے بوجھتے یہی کہا ۔ کہ بھتیجے یہ نہیں ہوسکتا ۔ کہ میں اعیان قریش کی مخالفت کروں ۔ اور اسلام قبول کرلوں گویا باوجہ اعتراف علم اور حضور کی خواہش کے ابوطالب رشدو ہدایت کی برکتوں سے محروم رہ گئے ۔ کیونکہ اللہ کی طرف سے توفیق واستعداد ذاتی نہیں ہوئی تھی ۔ اور خدا کو منظور نہیں تھا ۔ کہ ابو طالب دنیا سے ایمان وایقان کی دولت لے کر جاتے *