سورة القصص - آیت 32

اسْلُكْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ ۖ فَذَانِكَ بُرْهَانَانِ مِن رَّبِّكَ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(نیز) اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو، [٤١] وہ بغیر کسی تکلیف کے چمکتا ہوا نکلے گا۔ اور اگر ذرا محسوس ہو تو اپنا بازو اپنے [٤٢] جسم، سے لگا لو۔ سو یہ تیرے پروردگار کی طرف سے دو معجزے ہیں جنہیں تم فرعون اور اس کے درباریوں کے سامنے پیش کرسکتے ہو۔ وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں [٤٣]

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تجلیات ف 1: حضرت شعیب کے گھر سے موسیٰ (علیہ السلام) جس وقت رخصت ہوتے ہیں ۔ اس وقت ان کی بیوی ان کے ساتھ تھیں ۔ جنگل میں جارہے تھے ۔ تاریکی اور سردی تھی ۔ آگ کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ موسیٰ نے دور سے دیکھا ۔ کہ آگ کا شعلہ نظر آرہا ہے ۔ بیوی نے کہا ۔ میں نے آگ دیکھی ہے ۔ ذرا دور ہے ۔ میں جاتا ہوں ۔ شاید آگ مل جائے اور کچھ پتہ لگے تم یہیں ٹھہرو ۔ یہ کہہ کر موسیٰ آگے بڑھے دیکھا تو وہاں آگ نہ تھی ۔ تجلیات الٰہیہ کا ظہور تھا * ارشاد ہوا ۔ کہ موسیٰ میں تمہارا خدا ہوں ۔ ساری کائنات کارب ہوں ۔ غرض یہ تھی ۔ کہ موسیٰ کو عہدہ نبوت پر سرفراز کیا جائے ۔ ان کو معجزات عطا کئے جائیں ۔ اور بتایا جائے کہ اب تمہاری زندگی کا اصل دور شروع ہوتا ہے ۔ یہ تجلی تو محض مخاطب کرنے کا ایک ذریعہ تھی * تجلیات کی حقیقت تفصیل کے ساتھ گزر چکی ہے ۔ مختصرا یوں سمجھ لیجئے ۔ کہ جس طرح الفاظ معنی کے اظہار کا ایک ذریعہ ہوتے ہیں ۔ اسی طرح تجلیات اللہ کے منشا کے اظہار کی تعبیرات ہیں ۔ اور بس * ارشاد ہوا کہ یہ عصا جو تمہارے ہاتھ میں ہے ۔ زمین پر ڈال دو ۔ اور جب موسیٰ نے اس حکم کی تعمیل کی ۔ تو دیکھا کہ لٹھ اژدہا بن گیا ہے ۔ اس پر وہ ڈرے اور ڈر کر بھاگے ۔ حکم ہوا ۔ کہ ڈرتے کیوں ہو ۔ واپس آجاؤ۔ تم بالکل محفوظ اور مامون ہو ۔ دوسرا حکم ہوا ۔ کہ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈالو ۔ اور پھر نکالو ۔ اور دیکھو کہ کس قدر سفید براق ہوگیا ہے * یہ دو معجزے ہیں جو تمہیں دیئے گئے ہیں ۔ یا یوں سمجھ لو ۔ کہ فرعون کے طلسم کبرہ غرور کو توڑنے کے لئے دو بڑی بڑی دلیلیں ہیں ۔ ان کو لے کر اس کے اور اس کی قوم کے پاس جاؤ۔ کہ وہ فسق وفجور کو اپنا وطیرہ و خصلت بنا چکے ہیں ۔ تم ان کی اصلاح کرو * ان دو معجزوں سے ایک تو یہ مقصود تھا کہ بےسروسامان موسیٰ کا دل مضبوط ہوجائے اور وہ معلوم کرلے ۔ کہ اللہ کی مدد میرے شامل حال ہے ۔ اور دوسری جانب فرعون اور اس کی قوم کو یہ محسوس ہو کہ جس طرح یہ خشک لکڑی اژدہا بن سکتی ہے ۔ اور گوشت پوست کا ہاتھ براق اور چمکیلا ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح بنی اسرائیل جیسی بےضرر قوم ہمارے لئے خطرہ اور خوف ثابت ہوسکتی ہے ۔ اور اس کا نصیبہ چمک سکتا ہے ۔ اور وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکتی ہے * حل لغات :۔ من غیر سوء ۔ یعنی مبروص نہ ہونا ، جیسا کہ بائبل میں لکھا ہے *۔