وَجَاءَ رَجُلٌ مِّنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعَىٰ قَالَ يَا مُوسَىٰ إِنَّ الْمَلَأَ يَأْتَمِرُونَ بِكَ لِيَقْتُلُوكَ فَاخْرُجْ إِنِّي لَكَ مِنَ النَّاصِحِينَ
اور (اس واقعہ کے بعد) ایک شخص شہر کے پرلے کنارے سے دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا : ’’موسیٰ ! اہل دربار تیرے متعلق [٣٠] مشورہ کر رہے ہیں کہ تمہیں قتل کر ڈالیں لہٰذا یہاں سے نکل جاؤ۔ میں یقیناً تمہارا خیرخواہ ہوں‘‘
موسیٰ مدین کے کنویں پر ف 1: موسیٰ (علیہ السلام) کے قبطی کو مارنے کے واقعہ سے مصر میں سنسنی پھیل گئی ۔ اور طبقہ امرا میں ہل چل مچ گئی ۔ ان کو تشویش لاحق ہوئی ۔ کہ کہیں یہی نوجوان بنی اسرائیل کی نجات کا باعث نہ ہو ۔ اس لئے سب نے مل کر مشورہ کیا ۔ کہ اس کو پکڑ کر مار ڈالو ۔ حضرت موسیٰ کے مخلصین میں سے ایک آدمی تھا ۔ وہ دوڑتا ہوا آیا ۔ اور اس نے حقیقت حال سے موسیٰ کو آگاہ کردیا ۔ اس نے کہا ۔ کہ کہیں بھاگ جائیں ۔ آپ کے قتل کے مشورہے ہورہے ہیں ۔ اب حضرت موسیٰ پریشان ہوئے ۔ اور مدین کی طرف چل کھڑے ہوئے ان کو معلوم تھا کہ وہاں ان کے عزیز واقارب رہتے ہیں لیکن راستہ معلوم نہیں تھا ۔ ڈرتے ڈرتے مصر سے نکلے ۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی ۔ کہ مولا اس ظالم قوم سے مخلصی عطا فرمائیے * اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ مصر سے نکلے ہیں ۔ اس وقت نبوت سے باقاعدہ نہیں نوازے گئے تھے مگر وجدانی طور پر بنیاسرائیل کی محبت ان کے دل میں ضرور جاگزین تھی ۔ اور وہ قطعاً فرعون اور اس کی قوم کو ظالم خیال کرتے تھے *۔ دوسری بات جو اس ہجرت سے مستطاد ہوتی ہے ۔ یہ ہے کہ مصائب ومشکلات کے وقت صرف اللہ سے طلب اعانت کرنا چاہئے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب ہجرت فرمائی ۔ تو آپ نے بھی کہا ۔ انی ذاھب الی ربی سیھدین ۔ کہ میں اپنے رب کے لئے ہجرت کر رہا ہوں ۔ میری وہی راہ نمائی کرے گا ۔ اور حضرت موسیٰ اب جانے لگے ہیں تو بھی یہی فرماتے ہیں عسی ربی اللہ یھدینی سواء السبیل جس کے صاف معنے یہ ہیں ۔ کہ ہر واقعہ میں جب انسان اپنے کو کسی الجھن میں دیکھے ۔ تو اللہ سے استعانت چاہے ۔ اور فی الحقیقت جو لوگ اللہ کے سامنے جھکتے ہیں اور اس پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔ اور اسے اپناکار ساز اور وکیل سمجھتے ہیں ۔ اللہ ان کو کبھی ذلیل اور رسوا نہیں کرتا ۔ وہ ضرور ان کی آرزوؤں کو سنتا اور خواہشوں کو پورا کرتا ہے ۔ اس کی نسبت یہی ہے کہ اس کو پکارو ۔ وہ سنے گا ۔ اس سے مانگو ۔ تو وہ ضرور دے گا ۔ اور اگر اس پر مستحکم ایمان نہ ہو ۔ اس پرپورا بھروسہ اور توکل نہ ہو ۔ تو پھر وہ بھی پرواہ نہیں کرتا ۔ اور اس حالت میں اس پر کوئی الزام بھی عائد نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ خدا کو آزمانے کی ضرورت نہیں ۔ وہ آزمائشوں سے قطعاً مبرا ہے * حل لغات :۔ یأتمرون ۔ ائتمار سے ہے ۔ باہم کسی بات کے متعلق سوچنا ۔ مشورہ کرنا *