قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَىٰ ۗ آللَّهُ خَيْرٌ أَمَّا يُشْرِكُونَ
آپ ان سے کہئے کہ : سب طرح کی تعریف اللہ کو سزاوار [٥٧] ہے اور اس کے ان بندوں پر سلامتی ہو جنہیں اس نے برگزیدہ [٥٨] کیا، کیا اللہ بہتر ہے یا وہ معبود جنہیں یہ اس کا شریک بنا رہے [٥٩] ہیں؟
ف 1: افسوس ہے ۔ کہ آج کل بھی تقریباً یہی حالت رونما ہیں ۔ لوگوں میں یہ مرض سرعت کے ساتھ پھیل رہا ہے ۔ اور نوجوان اس شنیع افعال سے قطعاً شرم اور ندامت محسوس نہیں کرتے ۔ اور اب ان کے روز مرہ میں یہ چیز داخل ہوگئی ہے ۔ کہ وہ پاکباز نوجوانوں پر آوازے کستے ہیں ۔ اور مختلف مذاق کو روشن خیال سمجھتے ہیں ۔ یہ کس قدر شرم کا مقام ہے ۔ کہ جو بیماری قوموں کی ہلاکت وتباہی کا باعث ہے ۔ آج ہم اس بیماری پر فخر کر رہے ہیں ۔ ہماری مجلسوں میں ، کالجوں اور مدرسوں میں ۔ تربیت گاہوں اور مذہبی اداروں میں ہر وقت اس مدح کے چرچے رہتے ہیں ۔ گویا فضا بالکل شہوانی ہوچکی ہے ۔ اور وقت آگیا ہے ۔ کہ بدکاروں کی نسل دنیا سے مٹ جائے اور اس کی جگہ کوئی صالح اور نیک نسل لے ۔ کیونکہ اس مرض سے ہمیشہ تباہی پھیلتی ہے او گو آسمان سے پتھر کی بارش نہ ہو ۔ مگر نسلیں ضرور بیکار کم حوصلہ اور بزدل ہوجاتی ہیں ۔ اور یہ عذاب پتھراؤ سے زیادہ شدید اور ہولناک ہے ۔ کیونکہ اس میں تویہ ہونا ہے کہ قوم بالکل مٹ جاتی ہے ۔ اور اس کا وجوہ دوسری کے لئے باعث ہدایت نہیں ہوتا ۔ اور اس میں یہ ہوتا ہے ۔ کہ بظاہر زندہ رہتی ہے مگر روح اور عمل کے لحاظ سے بالکل مردہ اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے مجسم عذاب اور مجسم ہر آس و ناامیدی اس لئے ضرورت ہے کہ علما اور اکابر ملت حضرت لوط کی طرح میدان میں آئیں اور قوم میں اخلاق کی اصلاح کے لئے ٹھوس کام کریں ۔ اور اس سے ہرگز نہ شرمائیں کہ یہ کس نوع کا کام ہوگا ۔ جب ایک پیغمبر خاص اس مشن کی تکمیل کے لئے آسکتا ہے ۔ تو پھر اس سنت پر عمل کرنے سے علماء اور اکابر کیوں شرمائیں *۔