وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ فَإِذَا هُمْ فَرِيقَانِ يَخْتَصِمُونَ
اور ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو (یہ پیغام دے کر) بھیجا کہ : اللہ کی عبادت کرو۔ تو اسی وقت وہ دو فریق [٤٥] (مومن اور کافر) بن کر جھگڑنے لگے۔
حضرت سلیمان کا شیش محل ! ف 1: یہ دوسرا واقعہ ہے جس سے بلقیس کو حضرت سلیمان کی عظمت اور دانائی کا حال معلوم ہوا ۔ اور جس کی وجہ سے وہ اس درجہ متاثر ہوئی کہ فوراً اسلام کا اعلان کردیا * واقعہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان نے ایک عالیشان شیش محل تعمیر کرایا تھا ۔ اور اس کا صحن خصوصیت سے بلور کا بنوایا جس کے نیچے پانی رواں تھا اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ سارے صحن میں پانی بہہ رہا ہے * بلقیس جب محل میں داخل ہونے لگی تو اس نے اپنے پائنچے اٹھائے جب یہ معلوم ہوا کہ پانی نہیں بلور ہے ۔ اور اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا * بات یہ تھی کہ حضرت سلیمان اصل میں یہ بتانا چاہتے تھے ۔ کہ آفتاب پرستی محض عقیدہ کا دھوکا اور فریب ہے اور اس کو انہوں نے اس طرح ثابت کیا ۔ کہ بلور کے نیچے پانی رواں کردیا تاکہ بلقیس کے ذہن فوراً اس حقیقت کی جانب منتقل ہو کہ جس طرح یہ بلور پانی نہیں ہے ۔ بالکل اس میں سے پانی نظر آتا ہے ۔ اسی طرح آفتاب بھی تجلیات الٰہی کا مظہر ہے ۔ بجائے خود خدا یا معبود نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جس وقت اپنی غلطی کا احساس کرتی ہے ۔ تو فوراً اسلام قبول کرلیتی ہے اور اس کو معلوم ہوجاتا ہے کہ میرا سابق عقیدہ غلط تھا ۔ آفتاب پرستش کے لائق نہیں ہے ، بلکہ پرستش کے لائق وہ ہے جس کی روشنی کا یہ آئینہ دار ہے *۔ ممکن ہے تنکیر عرش سے بھی کوئی اس قسم کا اشارہ مقصود ہو ۔ یعنی علاوہ عظمت واختیارات کے اظہار کے اس رمز کی جانب توجہ کو مبذول کرنا مطلوب ہو ۔ کہ جس طرح تم نے اپنے تبدیل شدہ تخت کو پہچان لیا ہے اسی طرح دین فطرت کی طرف رجوع کرو ۔ اور اس کی حقیقت کو پہچانو ۔ یہی وہ دین ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہدایت کے لئے نازل فرمایا ہے ۔ ہاں اس کی موجودہ شکل یقینا تمہارے تخت کی طرح بگڑ چکی ہے اور اب تمہارا اور تم جیسے عقلمند لوگوں کایہ فرض ہے کہ وہ اصل حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کریں معلوم ہوتا ہے یہ انداز بیان تبلیغ کے لئے اس لئے اختیار فرمایا کہ اس زمانے کے لوگ حکمت اور دانائی اور رمز واشارات کی باتوں کو زیادہ اچھے کرتے تھے *