فَلَمَّا جَاءَتْ قِيلَ أَهَٰكَذَا عَرْشُكِ ۖ قَالَتْ كَأَنَّهُ هُوَ ۚ وَأُوتِينَا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِينَ
پھر جب ملکہ (مطیع ہو کر) آگئی تو سلیمان نے اس سے پوچھا : ’’کیا تمہارا تخت بھی اسی طرح کا ہے؟‘‘ وہ کہنے لگی : ’’یہ تو گویا ہو بہو وہی ہے۔ اور ہمیں اس سے پہلے ہی حقیقت حال معلوم ہوگئی تھی اور ہم فرمانبردار [٤٠] ہوگئے تھے۔‘‘
ف 2: اس واقعہ سے بعض کو حیرت ہوتی ہے کہ اتنی دور سے اس قدر تخت کے آجانے میں کیونکر عقلی امکانات ہیں ! وہ اس قصے کو حقیقت پر مبنی نہیں سمجھتے اور افسانہ قرار دیتے ہیں ۔ حالانکہ یہ بالکل ناممکن ہے اس سلسلے میں دوباتوں کا سمجھ لینا ضروری ہے ۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت بہت زیادہ وسیع ہے ۔ جب آفتاب ایسے بڑے کرے کو چند گھنٹوں میں اربوں میل گھمادیتا ہے تو اس کے لئے یہ کچھ مشکل نہیں کہ وہ سلیمان کے خدام کو میں سے کسی شخص کو اتنی طاقت دے کہ بہت جلد تخت کو لا حاضر کرے ۔ دوسری بات حرکت کی تجدید کا مسئلہ ہے اور تخت علم الحرکت کے ماہرین کا خیال ہے کہ کہ اس کو جھوٹ نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ چنانچہ اس نقطہ نگاہ کی وجہ سے آیئے دیکھیں کہ کس قدر وسیع السیر سواریاں ایجاد کی گئیں اور اگر تسلیم کرلیا جائے کہ حرکت ایک خاص ہدایت کا کام کرتی ہے اور اس سے آگے اس کو نہیں بڑھایا جاسکتا ۔ تو پھر یہ تمام اختراعات ختم ہوجائیں * روشنی آواز اور نظر چند لمحات میں کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے ۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ وہ شخص سرعت حرکت کے قانون سے آگاہ ہو جیسا کہ کہا گیا ہے کہ اس کے پاس کتاب کا علم تھا تو اس صورت میں یہ معجزہ نہیں رہے گا بلکہ حیرت انگیز واقعہ ہوگا جس کا تعلق اس وقت کی سائنس اور حکمت سے ہے ۔