وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ
اور شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ [١٣٤] ہی کرتے ہیں۔
(ف 2) حضور کے متعلق ایک شبہ یہ بھی تھا کہ آپ شاعری سے اور محض دقیق قسم کی باتوں سے لوگوں کے دلوں کو موہ لیتے ہیں ۔ ورنہ دراصل ان میں کوئی صداقت نہیں ارشاد فرمایا کہ تم لوگ منصب نبوت سے آگاہ نہیں ۔ تم جانتے کہ نبوت کس قدر اعلیٰ درجے کی چیز ہے ۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ شعراء کس قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔ اور ان کااتباع کس قماش کے لوگ کرتے ہیں ! نبوت اور شاعری میں کیا نسبت ۔ نبوت تو سراسر عمل کا نام ہے ۔ اور شاعری ہمہ گمراہی وبے عملی ۔ الشعراء کا کوئی خاص نصب العین نہیں ہوتا ۔ وہ محض بیکار اور بےعمل لوگ ہوتے ہیں ۔ اور ہر رو میں بہ جاتے ہیں ۔ بخلاف اس کے انبیاء سراپا فکر کا مجسمہ اور نہایت سلیم الطبع ہوتے ہیں ۔ اور ان کے سامنے ایک نصب العین بھی ہوتا ہے جس کو وہ پیش کرتے ہیں ۔ اس آیت سے نفیس شاعری کی مذمت مقصود نہیں ۔ نہ شعراء کی نفسیاتی حالت کا تجزیہ کرنا منظور ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ نبوت اور شاعری میں مابہ الامتیاز کیا ہے ! حل لغات: الْغَاوُونَ:غاو کی جمع ہے ۔ کمینے گمراہ ۔