سورة آل عمران - آیت 21

إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَيَقْتُلُونَ الَّذِينَ يَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جو لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرتے رہے اور انبیاء کو ناحق قتل [٢٥] کرتے رہے اور ان لوگوں کو بھی جو انصاف کرنے کا حکم دیا کرتے تھے۔ تو ایسے لوگوں کو دکھ دینے والے عذاب [٢٦] کی خوشخبری سنا دیجئے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

شہید انبیاء : (ف ١) قساوت قلبی اور شومئی قسمت کی بدترین صورت ہے کہ کوئی شخص اپنے محسن سے دشمن کا ساسلوک کرے ۔ انبیاء علیہم السلام نسل انسانی کے سب سے بڑے محسن ہوتے ہیں ، کیونکہ وہ روح وجسم کی تربیت واصلاح کے لئے آتے ہیں اور ہر مصیبت کو برداشت کرنے کے لئے آمادہ ہوتے ہیں ، مگر حق وصداقت اور فلاں وبہبود انسانی سے دستبردار ہونے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہوتے ۔ یہودی ہمیشہ ضدی رہے ہیں ، ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے پہیم اور مسلسل نبی بھیجے ، تاکہ وہ راہ راست پر آجائیں ، مگر وہ وہیں رہے اور ان کے جمود وتساہل میں ذرہ برابر تحریک پیدا نہیں ہوئی بلکہ تمرد ہوگئے اور بعض کو شہید ہی کر ڈالا ، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، ان کے تمام اعمال ضائع ہوگئے ، اور وہ ایک زبردست عذاب کے لئے تیار رہیں ۔ (آیت) ” ومالھم من نصرین “۔ چنانچہ خدا کی غیرت حرکت میں آئی ، اس کا غضب وجلال بھڑکا اور طے ہوگیا کہ بنی اسرائیل کو اس قساوت قلبی کی بدترین سزا دی جائے بخت نصر آیا اور کشت وخون کا بازار گرم ہوگیا ، یہودی بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کئے گئے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ، تورات کے اوراق الاؤ کا ایندھن بنے اور قتل وسفاکا وہ طوفان اٹھا کہ دنیا چلا اٹھی ، اکثر یہودی مارے گئے ، جو بچ گئے انہیں بابل ونینوا کے جیل خانوں میں بند کردیا گیا اور مدت تک قیدوبند کی سختیاں جھیلتے رہے ، یہ کیوں ہوا ؟ اس لئے کہ وہ خدا کی طاقت کے سامنے جھکیں اور عبرت حاصل کریں ۔ بعض لوگوں نے یہ حرمت نبوت کے منافی خیال کیا ہے کہ نبی شہید ہوجائے اس لئے ان کی خیال میں (آیت) ” یقتلون “ کے معنی باہمی آویزش وتصادم کے ہیں ، مگر یہ صحیح نہیں ، ایک تو قرآن کے الفاظ صاف ہیں دوسرے تورات میں قتل انبیاء کی کئی مثالیں ملتی ہیں ، تیسرے یہ کوئی ضروری نہیں کہ انبیاء طبعی موت سے ہی دوچار ہوں اور شہادت سے محروم رہین ۔ یہ درست ہے کہ حق ہمیشہ غالب رہتا ہے مگر حق کو سربلند رکھنے کے لئے کبھی کبھی جان تک کو پیش کرنا پڑتا ہے ، شہید ہوجانا اس وقت وظیفہ نبوت کے منافی ہوتا ہے جب نبی اپنے مشن کو پیش کرنے سے قاصر رہے اور اس سے پیشتر کہ لوگوں تک اپنا پیغام پہنچائے ، زندگی سے محروم کردیا جائے اور اگر وہ سب کچھ پہنچا چکا ہو ، ضرورت صرف اس بات کی رہ جائے کہ وہ اس باغ کی آبیاری اپنے خون سے کرے جس کو اس نے اپنے ہاتھوں بڑی محنت سے لگایا ہے تو اس وقت سے کرے جس کو اس نے اپنے ہاتھوں بڑی محنت سے لگایا ہے تو اس وقت اس کا فرض ہوتا ہے کہ اپنی جان پر کھیل جائے ، جب بستر مرگ پر جان دینا منصب نبوت کے منافی نہیں تو میدان جنگ میں شہادت سے سرفراز ہونا کیوں منافی ہو ؟ اصل شبہ عصمت انبیاء کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے مگر یہ یاد رہے کہ ” مجرد نبوت “ اس کے لئے کافی نہیں ، وہ انبیاء جنہیں اس کا وعدہ دیا گیا ہے وہی دشمنوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہتے اور دوسرے کوئی ضروری نہیں کہ محفوظ رہیں ، یہی وجہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (آیت) ” واللہ یعصمک من الناس “ کی ایک خصوصیت بخشی ورنہ کہہ دینا کافی تھا کہ آپ نبی ہیں اور انبیاء دشمنوں سے ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں ۔ حل لغات : بشرھم : خوشخبری سنا ، بطور طنز کے ہے نصیب : ایک حصہ :