فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ
لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
(ف 1) معلوم ہوتا ہے کہ اصحاب ایکہ بادیہ پیما لوگ تھے اور ان کا کوئی مستقل مسکن نہ تھا یہی وجہ ہے کہ ان کو اصحاب ایکہ سے موسوم کیا گیا ۔ ایکہ کے معنی درختوں کے اجتماع اور جھنڈ کے ہوتے ہیں ۔ دوسرے قصوں اور اس میں ایک بات امتیاز کی ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ ان سب قصوں میں پیغمبروں کو ان کی قوم کا بھائی قرار دیا گیا ہے ۔ جیسے اخوھم نوح اخوھم ھوداخوھم صالح ۔ اخوھم لوط ۔ مگر اس قصے میں کہا گیا ہے ۔ ﴿إِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ﴾ جس کی وجہ مفسرین نے یہ بیان کی ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) قومیت کے اعتبار سے ان لوگوں میں سے نہیں تھے ۔ مگر اس سے زیادہ موزوں اور دقیق وجہ یہ ہے کہ اصل میں انبیاء کو اخوان قوم باعتبار قومیت کے نہیں کہا گیا ۔ بلکہ بااعتبار اس شفقت اور محبت کے کہا گیا ہے ۔ جو انبیاء کو اپنی امت کے ساتھ ہوتی ہے ۔ اور اس میں یہ حکمت بھی پنہاں ہے کہ لوگ باوجود انتہائی عقیدت اور منزلت کے ان کو دائرہ بشریت کے اندر سمجھیں ۔ اور ان کے مرتبے کو حد سے زیادہ نہ بڑھائیں ۔ حضرت شعیب کے لئے اخ کا لفظ غالباً اس لئے استعمال نہیں فرمایا ۔ تاکہ شعیب (علیہ السلام) کی قوم کے متعلق معلوم ہو کہ ان کی بدمعاملگی کی وجہ سے ان کے ہی کا رستہ اخوت ان سے منقطع ہے ۔ اور جب تک یہ لوگ معاملات میں دیانت دار نہ ہوں گے اخوت ان میں قائم نہ ہوسکے گی ۔ اور یہ برابر منتشر اور متفرق افراد کی صورت میں رہیں گے ۔ اس لفظ کے یہاں ترک کردینے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر جرم بدمعاملگی کے جرم سے نسبتاً ہلکا ہے ۔ پیغمبر کا رشتہ اخوت سے منقطع نہیں ہوا کرتا ۔ مگر بدمعاملگی کی صورت میں پیغمبر کسی قوم سے کسی قسم کا ناطہ نہیں رکھتے ۔ بات یہ تھی کہ اصحاب الایکہ تجارت پیشہ لوگ تھے ۔ جنگلوں میں پھر کر تجارت کرتے اور اپنا وقت گزارتے ۔ مگر ان میں یہ برائی پیدا ہوگئی کہ ماپ تول میں بددیانتی کرنے لگے۔ اور اس طرح نظام تمدن سے دشمنی کرنے لگے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب کو ان کی اصلاح کے لئے مبعوث فرمایا ۔ تاکہ ان کو اس حقیقت کی جانب توجہ دلائی جائے کہ رشتہ انسانیت کو استوار کرنے کے لئے دیانتداری شرط اول ہے اور یہ ہرگز ضروری نہیں کہ تجارت کے لئے خواہ مخواہ بےایمانی کی جائے ۔ غیر متدین اشخاص نے یہ بات غلط طور پر مشہور کردی ہے کہ تجارت اور دیانت دو مختلف چیزیں ہیں ۔ حالانکہ حقیقت میں دیانت وامانت دونوں چیزیں تجارت کو فروغ دینے کے لئے بمنزلہ راس المال کے ہیں ۔ اس لئے جو قوم معاملات اور لین دین میں حدود اخلاق کو ملحوظ نہیں رکھتی کبھی سچی اور حقیقی کامیابی حاصل نہیں کرسکتی ۔ جھوٹ سے تجارت کو حقیقی فائدہ نہیں پہنچ سکتا ۔ یہ الگ بات ہے کہ عارضی طور پر کوئی شخص بھی کسی کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوجائے مگر ہمیشہ لوگوں کو دھوکے میں رکھنا نا ممکن ہے ۔ حضرت شعیب نے جب ان سے کہا کہ ماپ تول میں دیانتداری سے کام لو ۔ کیونکہ صحیح تمدن کا یہی تقاضا ہے تو انہوں نے اس صاف گوئی کو ناگواری کے ساتھ سنا اور انکار کردیا ۔ نتیجہ وہی ہوا سنت اللہ کے مطابق عذاب میں مبتلا ہوگئے ۔ اور مٹ گئے ۔