رَبِّ نَجِّنِي وَأَهْلِي مِمَّا يَعْمَلُونَ
پھر (دعا کی) پروردگار! جو کام یہ لوگ کر رہے ہیں اس سے مجھے اور میرے گھر والوں [١٠١] کو نجات دے۔
ف 1: حضرت لوط (علیہ السلام) نے اللہ سے پناہ مانگی ۔ اور دعا کی کہ اللہ مجھے اور میرے گھر والوں کو ان ظالموں سے مخلصی عطا فرما ۔ اور ان کی بداعمالیوں کے وبال سے نجات دے ۔ نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ ان لوگوں پر پتھروں کی سخت بارش ہوئی ۔ اور یہ ہمیشہ کے حرف غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے *۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ بداخلاقی بھی قوم کی تباہی اور ہلاکت کا باعث ہوسکتی ہے ۔ بلکہ اخلاق دشمنی کی اصلاح اللہ تعالیٰ کے نزدیک ۔ اس وجہ اہم ہے کہ اس کے لئے ایک خاص پیغمبر مبعوث اور مامور کیا گیا *۔ کیا مسلمانوں نے کبھی غور کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان واقعات کو کیوں بیان فرماتے ہیں ؟ آخر لوط (علیہ السلام) کی قوم کے غیر فطری رجحانات ہمارے لئے کیوں قابل تشریح ہیں ؟ کیوں ان کے اس گندے مذاق کی تشہیر ضروری سمجھی گئی ۔ بلکہ کئی دفعہ انسان کو بیان فرمایا ! اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا ۔ کہ ایک وقت آئے گا ۔ جب کہ مسلمانوں میں بھی یہ مرض پھیلے گا ۔ اور وہ کذبات وخیالات کے لحاظ سے بالکل سدومیوں کے ہم مرتبہ ہوں گے ۔ اور ان کی طرح پاکبازی کو نفرت کے قابل سمجھیں گے * موجودہ تہذیب اور کلچر کی وجہ سے قوم کے بےشمار بچے اس ابتلائے عظیم میں مبتلا ہیں ۔ نسلیں کمزور ہورہی ہیں ۔ حوصلہ اور جسارت کے دعوے تقریباً ختم ہیں ۔ کیا علمائے قائدین اس مرض کے کے ازالہ کے لئے حضرت لوط (علیہ السلام) سے سبق لیں گے اور آئندہ نسلوں کو ہلاکت وتباہی کے عذال سے نجات دلائینگے *۔