قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُوا سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَىٰ جَهَنَّمَ ۚ وَبِئْسَ الْمِهَادُ
آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے کہ عنقریب تم مغلوب [١٣] ہوجاؤ گے اور جہنم کی طرف ہانکے جاؤ گے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے
ایمان کی فتح اور کفر کی شکست : (ف ٢) (آیت) ” قل للذین کفروا ستغلبون “ میں یہود کو مخاطب کرکے فرمایا گیا کہ تم عنقریب مسلمانوں کے غلبہ واقتدار کے قائل ہو جاؤگے ، تمہیں تمہاری بستیوں سے نکال دیا جائے گا اور تمہارے باغات ویران کر دئے جائیں گے ، یہ اس لئے یہود کو اپنے مال ودولت پر بہت نازل تھا اور وہ قوت وعظمت کے نشہ میں سرشار تھے ، ضرورت تھی کہ انہیں خواب غفلت سے بیدار کیا جائے ، ضمنا اس آیت میں کفر کی دائمی مغلوبیت کی طرف اشارہ کردیا ، یعنی علو واقتدار ‘ بلندی وقوت صرف ایمان کے حصہ میں آئی ہے ، کفر ہمیشہ ہمیشہ پست اور ذلیل رہے گا ، چنانچہ ان کے سامنے بدر کا نقشہ رکھا ۔ مسلمان کل تین سوتیرہ تھے ، ستر اونٹ ‘ دو گھوڑے ‘ سات زرہیں اور آٹھ تلواریں زاد حرب سمجھئے ، دوسری طرف کفار کا لشکر جرار پوری تیاری کے ساتھ صف آراء تھا ، جس کے تمام سرداروں نے اس فراغ دلی اور فیاضی کے ساتھ حصہ لیا تھا ، فخر وغرور تکبر وتمکنت اور قوت وکثرت کا یہ طوفان مسلمانوں کو ” مشت غبار “ کی طرح منتشر کردینا چاہتا تھا ، کفر وضلالت کے تاریک اور سیاہ بادل آمادہ تھے کہ خرمن ایمان وبصیرت پر بجلیاں گرائیں ، کفر و ایمان کی یہ پہلی اور خطرناک سازش تھی ، ایمان کی بےبضاعتی اور باب کفر کے لیے باعث صد خندہ تھی شیطان ہنس رہا تھا ، اور خوش تھا کہ اللہ والے آج مٹنے کو ہیں ، مگر رب ذوانتقام کی ظاہر فوجیں مسلمانوں کے ساتھ تھیں ، تائیدغیبی نے ان کے دلوں کو فولاد بنا دیا ، وہ لڑے اور اس بےجگری کے ساتھ کہ کفر بایں کثرت وحشمت بری طرح ذلیل اور رسوا ہوا ، ایمان ہمیشہ کے لئے سربلند ہوگیا اور کفر سرنگوں ، کیا یہ واقعہ اس بات کی دلیل نہیں کہ ایمان بجائے خود فاتح ومنصور ہے اور کفر مغلوب ومقہور ۔