وَتِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَيَّ أَنْ عَبَّدتَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ
اور جو احسان تو مجھے جتلا رہا ہے (اس کی وجہ تو یہی تھی) کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام [١٥] بنا رکھا تھا۔
موسیٰ اور فرعون کی بحث ف 1: حضرت موسیٰ نے جب بنی اسرائیل کی بندگی اور غلامی کے خلاف احتجاج کیا ۔ اور فرعون سے کہا ۔ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ اور بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کرتا ہوں ۔ تو فرعون نے کہا ۔ یکایک تجھے نبوت کیونکر مل گئی ؟ کیا ہم نے تیری تربیت نہیں کی ۔ اور تمہیں پال پوس کر بڑا نہیں کیا ۔ اور کیا تو ایک مدت تک ہمارے پاس نہیں رہا ۔ اور کیا تونے اس قبطی کو بلاوجہ نہیں مار ڈالا تھا ؟ حضرت موسیٰ نے جواباً کہا ۔ کہ قبطی کے معاملہ میں مجھ سے واقعی لغزش ہوگئی تھی ۔ اور ڈر کر میں بھاگ گیا تھا ۔ اب اللہ نے مجھے سمجھ بوجھ عنایت فرمائی ہے ۔ اور مجھے نبوت کا عہدہ عطا کیا ہے ۔ اس لئے تیری راہنمائی کے لئے آیا ہوں ۔ باقی تربیت وغیرہ کا احسان ، تو کیا پوری قوم کو غلام بناکر ایک فرد کی تربیت کرنا کوئی بہت بڑا احسان ہے ۔ جو تو جتلارہا ہے ۔ اور پھر یہ بھی تو اس وجہ سے ہوا ۔ کہ تونے بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کرڈالنے کا حکم دے رکھا تھا ۔ یہ تیرے استبداد اور ظلم کا نتیجہ ہے ۔ کہ میں تیرے ہاتھ لگا اور تیرے محل میں میری تربیت ہوئی *۔ اب فرعون نے جب دیکھا ۔ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے نہایت معقول جواب دیئے ہیں ۔ اور اس کے بعد ان سوالات پر مزید گفتگو کی گنجائش نہیں ۔ تو اس نے پہلو بدلا ۔ اور کہا ۔ کہ یہ رب العالمین کون ہے ؟ جس کی طرف سے تو رسول ہوکر ایا ہے ۔ اور جس کی جانب تو ہمیں دعوت دیتا ہے ۔ اور جس کانام بار بار تیری زبان پر آتا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے جواباً کہا ۔ رب العالمین وہ ہے جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا ۔ اس پر وہ اپنے حواریوں سے مخاطب ہوکر کہنے لگا ۔ سنتے ہو ۔ موسیٰ کیا کہہ رہے ہیں ؟ گویا وہ چاہتا تھا کہ اپنے اہالی موالیوں کو مشتعل کیا جائے ۔ اور ان کو بتایا جائے ۔ کہ موسیٰ تمہارے معتقدات کے خلاف عقیدہ رکھتا ہے ۔ موسیٰ نے بات کا رخ بدل کر کہا ۔ کہ رب وہ ہے جس نے تم کو پیدا کیا ہے ۔ اور تمہارے آباؤ اجداد کو بھی ۔ فرعون اس مزید تشریح سے گھبرا گیا ۔ اور جو اب بن نہ آیا ۔ تو کہنے لگا ۔ کہ یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ۔ قطعی دیوانہ ہے ۔ موسیٰ نے اس کے جواب کو قابل جواب نہ سمجھتے ہوئے کہا ۔ کہ وہ خدا مشرق ومغرب اور جو کچھ ان دونوں میں ہے ۔ سب کا مالک ہے ۔ مگر تم نافہمی کی وجہ سے محسوس نہیں کرتے ۔ فرعون اس جواب سے بالکل بوکھلا گیا ۔ اسے پہلی دفعہ معلوم ہوا ۔ کہ کوئی ذات ایسی ہے ۔ جو اس سے بہت اعلیٰ وارفع ہے ۔ اور اس کی حدود وسلطنت مشرق سے مغرف تک وسیع ہیں ۔ اس نے غصہ سے بےتاب ہوکر کہا ۔ خبردار ! جو میرے سوا کسی دوسرے کو خدا مانا ۔ ورنہ یاد رکھو ۔ کہ میں تمہیں قید کردوں گا *۔ حضرت موسیٰ نے بالکل بےخوف ہوکر کہا ۔ کیا دلیل ومعجزہ کے بعد بھی تم سختی کروگے ۔ اس نے کہا ۔ اگر تم میں صداقت ہے ۔ تو دلائل پیش کرو ۔ موسیٰ نے اپنی لاٹھی کو ڈالا ۔ تو وہ اژدھا بن گئی ۔ اور بغل میں سے ہاتھ دبا کر نکالا ۔ تو سفید چمکتا ہوا نظر آنے لگا ۔ یہ معجزے دراصل فرعون کے لئے بمنزلہ ، تشبیہ کے تھے ۔ اس کو ان معجزات سے یہ بتانا مقصود تھا ۔ کہ اللہ کی قدرت سے بےجان خشک لکڑی بھی اژدہا بن سکتی ہے ۔ اس لئے تم بنی اسرائیل کو اپنے لئے بےضرر نہ سمجھو ۔ اور ہاتھ کا براق ہونا کامیابی وکامرانی کی طرف اشارہ ہے *۔