وَإِذْ نَادَىٰ رَبُّكَ مُوسَىٰ أَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
اور (وہ واقعہ یاد کرو) جب تمہارے [٨] پروردگار نے موسیٰ کو پکارا کہ : ظالم قوم کے پاس جاؤ
حضرت موسیٰ کا مطالبہ آزادی ف 2: حضرت یوسف سے تقریباً چار سو سال بعد بنی اسرائیل کی حالت مصر میں بہت خراب ہوگئی ۔ اور ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جانے لگے ۔ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا ۔ کہ ان کی بہتری اور بہبودی کے لئے ایک پیغمبر کو بھیجا جائے ۔ جو ان کی غلامی اور بندگی کی زنجیروں کو توڑا دے ۔ اور جو اپنے الفا میں قدسیہ سے ان لوگوں کے دل میں ایمان کی شمع کو روشن کردے ۔ چنانچہ اس خدمت کے لئے حضرت موسیٰ منتخب کیا گیا ۔ اور آپ سے کہا گیا ۔ کہ فرعون کی قوم بہت ظالم ہوچکی ہے ۔ اور اس کی سرکشیاں حد سے زیادہ بڑھ گئی ہیں ۔ تم جاؤ۔ اور اس کی رشدوہدایت کی طرف دعوت دو ۔ آخر کیوں ان لوگوں کے دلوں میں نعشیت وتقوی کے جذبات پیدا نہیں ہوتے ؟ حضرت موسیٰ نے کہا ۔ کہ میں ڈرتا ہوں کہ وہ مطالبے کو ٹھکرا نہ دیں ۔ اور میرے پیغام کی تکذیب نہ کردیں ۔ یہ بھی خیال ہے کہ ان کا سامنا کرنے سے میرے دل میں ایک قسم کی تنگی پیدا ہوتی ہے ۔ اور زبان بھی جو ہر بلاغت ، فضاحت سے محروم ہے ۔ اور ایک یہ بات بھی ہے ۔ کہ قبطی کو مارڈالنے کا جرم بھی مجھ پر ہے ۔ اس لئے مجھے مارے ڈالے جانے کا بھی خوف ہے ۔ غرضیکہ میری انتہا درجہ کی مخالفت ہوگی * اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ جاؤ ان میں سے کوئی خوف بھی تمہارے دل میں نہیں رہے گا ۔ تمہارے سینے کی تنگی اور حصیق کو انشراح سے بدلے دیتے ہیں ۔ زبان فصیح وبلیغ ہوجائے گی ۔ اور ہاتھ بٹانے کے لئے ہارون کو ساتھ کئے دیتے ہیں ۔ ہماری نشانیاں لے کر فرعون کے پاس جاؤ۔ ہم تمہاری دعاؤں کو سننے والے ہیں ۔ فرعون سے جاکر صاف صاف طور پر کہہ دو ۔ ہم رب العالمین کی طرف سے رسول ہوکر آئے ہیں ۔ اس لئے اب بنی اسرائیل کی غلام کا دور ختم ہوچکا ہے ۔ اب وقت آگیا ہے ۔ کہ تو ان کو آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہونے کا موقع دے ۔ اب یہ عبودیت اور ذلت کی زندگی بسر نہیں کرسکتے ۔