وَهُوَ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۚ وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا
ساور وہی تو ہے جو اپنی رحمت (بارش) سے پیشتر ہواؤں [٦٠] کو بشارت بناکر بھیجتا ہے اور ہم نے ہی آسمان سے صاف ستھرا [٦١] پانی اتارا ہے۔
تذکیربآلا اللہ ف 3: قرآن حکیم دلائل وبراہین کا بےنظیر مجموعہ ہے ۔ اس میں ہر نوع اور ہر طبقے کے لوگوں کے لئے تسکین کا بہتر اور وافر سامان موجود ہے ۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں دعوت واشاعت کے کسی طریق کو اٹھا نہیں رکھا گیا ۔ اس میں حکمت وفلسفہ بھی ہے ۔ اور نفسیات انسانی کی عکاسی بھی ۔ معقول اور ٹھوس دلائل بھی ہیں ۔ اور اقوام و ملل کے حالات بھی ممکن طریقے تصور میں آسکتے ہیں ۔ وہ سب اس میں موجود ہیں ۔ ان آیات میں مشاہدات فطرت کا بیان ہے ۔ اور تذکیر بآلاء اللہ کے اصول پر ان لوگوں کو دعوت ایمان ہے ۔ جو غرو وفکر کے عادی ہیں ۔ ارشاد ہے کہ دیکھو ہم نے انسانوں کے سکھ اور آرام کے لئے آفات پیدا کیا ۔ اس کی وجہ سے ساری کائنات میں روشنی پھیل جاتی ہے ۔ اور ایک عجیب خوشگوار فضا پیدا ہوجاتی ہے ۔ اگر وہ نہ ہو تودنیا میں تاریکی وظلمت چھا جائے ۔ کیا وہ اسی طرح کفر کی ظلمتوں اور تاریکیوں کو دور کرنے کے لئے کسی نے آفتاب ہدایت کی ضرورت نہیں ! ہم نے رات پیدا کی ہے کہ وہ تمام عیوب لوالتیاس کی طرح ڈھانک لیتی ہے ۔ اور نیند کو آرام کرنے کے لئے بنایا ، نیز دن کو پیدا کیا ۔ جس میں تم اٹھ کھڑے ہوتے ہو ؟ تو کیا موت کی نیند سے بیداری اور العثثت ممکن نہیں ؟ اور ہم خوشخبری دینے والی ہوائیوں کو بھیجتے ہیں ۔ جو باران رحمت کی خبردیتی ہیں اور آسمان سے پاک وصاف پانی برساتے ہیں ۔ کہ خشک اور مردہ زمینیں اس کی وجہ سے زندہ ہوجاتیں ہیں ۔ اور حیوانات اور انسان اس پانی سے استفادہ کریں ۔ تو کیا دل کی خشک اور مردہ زمینیں الہام و وحی کی بارش کے پانی سے تر وتازہ نہ ہوگی ؟ یعنی تم ان تمام معجزاہ توین پر غور کرو ۔ تو تمہیں معلوم ہوگا کہ حکیم وعلیم اللہ اپنے بندوں پر کس درجہ مہربان ہے ۔ ارشاد ہے کہ ہم چاہتے تو ہر بستی میں پیغمبر بھیجتے ۔ اور آپ کی سہولت و آسانی ہر آئنہ مدنظر رکھتے ۔ مگر طے یہ تھا ۔ کہ ان تمام رسالت کی ذمہ داریاں کو آپ تنہا نہ اٹھائیں ۔ اس لئے اپنے اس منصب جلیل کو دیکھتے ہوئے منکرین کی خواہشات کا احترام نہ کیجئے ۔ اور انکی جہالت اور سرکشی کے خلاف زبردست جہاد کیجئے ۔ اس کے بعد پھر مختلف نعمتوں کا ذکر ہے ارشاد ہوتا ہے ۔ کہ دیکھو بعض دفعہ ایک دریا ہوتا ہے اور اس میں دو قسم کے دھارے الگ الگ اور ممتاز طریق پر بہتے ہیں ۔ ایک دھارا میٹھا اور شیریں ہوتا ہے ۔ اور دوسرا کڑوا اور کھاری اور دونوں کے درمیان ایک آڑ اور مضبوط اوٹ ہوتی ہے ۔ جو ان کو آپس میں ملنے نہیں دیتی ۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ کے وجود اور زبردست قدرت پر حیرت انگیز دلیل نہیں ۔ آخر ان دونوں دھاروں کو آپس میں ملنے سے کس نے روک رکھا ہے ۔ اور کس نے ان دونوں میں الگ الگ خواص اور رنگ پیدا کئے ہیں ؟ یہ بھی اس کی قدرت باہرہ ہے کہ ایک قطرہ آب سے آدمی پیدا کرکے اسے کنبوں اور قبیلوں والا بنادیتا ہے ۔