سورة البقرة - آیت 284

لِّلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّهُ ۖ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے [٤١٣] سب اللہ ہی کا ہے۔ اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خواہ تم اسے چھپاؤ یا ظاہر کرو، اللہ تم سے اس کا حساب لے گا۔ پھر جسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا سزا دے گا اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

محاسبہ نفس : (ف ١) اس سے پہلے کی آیات میں کتمان شہادت سے منع فرمایا اور بتایا کہ ہر دھوکے اور فریب سے بچو ، اس آیت میں اعلان کیا ہے کہ دوسروں کے متعلق برے خیالات رکھنا بھی موجب گناہ ہے یعنی مسلمان کو اعمال وجوارح سے لے کر قلب وخیال کی گہرائیوں تک پاکیزہ ہونا چاہئے ، مطلب صاف اور واضح ہے مگر چونکہ اس کے بعد ہی (آیت) ” لا یکلف اللہ نفس الا وسعھا “ کی آیت ہے یعنی خدا تکلیف مالایطاق نہیں دیتا ، اور حدیث میں آتا ہے کہ ” ان اللہ غفر لھذہ الامۃ ما حدثت بہ انفسھم “۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس امت پر فضل کیا ہے کہ وساوس کو قابل عضو ٹھہرایا ہے ، اس لئے شبہ پیدا ہوا کہ پھر نفس کے خیالات وافکار پر محاسبہ کیسا ؟ بعض نے اس کی تاویل یہ فرمائی کہ اس سے مراد کتمان شہادت ہے بعض نے فرمایا ، اس کا مقصد کفر ونفاق کا خیال ہے ، کہا یہ منسوخ ہے آیت ما بعد سے مگر اگر غور کیا جائے اور خیال وفکر کے نتائج پر نظر معان نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک حقیقت نفسی ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے اور کسی آیت وحدیث سے معنا اس کا تصادم نہیں ہوتا ، اس لئے تخصیص اور تنسیخ کا سوال ہی غلط ہے ، دماغ وقلب میں جتنے خیالات وجذبات پیدا ہوتے ہیں ان کا اثر ہوتا ہے جو بعض دفعہ نہایت لطیف وکمزور ہونے کی وجہ سے جوارح تک منتقل نہیں ہوتا ، اور نفس کی اگر تحلیل کی جائے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ خیالات وافکار میں محاسبہ کا عمل کار فرما ہے ، چھوٹے سے چھوٹا خیال جو برا ہو ‘ وہ بلا ذہنی تعزیر کے نہیں رہتا ، اسی طرح اچھا خیال وجذبہ ذہن کے لئے باعث مسرت ہوتا ہے ، کیا یہ حقیقت نہیں کہ تمام برے اعمال برے خیالات کا نتیجہ ہوتے ہیں اور کیا برائی برے خیال کی عملی سزا نہیں ؟ اس آیت میں اسی نفسیاتی اصول محاسبہ کو بیان فرمایا ہے اور مقصد یہ ہے کہ مسلمان جذبہ تاثر کے لحاظ سے بھی بہترین انسان ثابت ہو ۔ حدیث وآیت ما بعد کا تعلق اس نفس محاسبہ سے نہیں ، بلکہ اس محاسبہ سے ہے تو قضا یا خارج سے تعلق رکھتا ہے یعنی کسی چور کو محض اس لئے سزا نہیں دی جائے گی کہ اس کے دل میں چوری کے خیالات ہیں ، بلکہ اس وقت وہ سزا کا مستحق ہوگا ، جب یہ خیالات اسے چوری کے لئے مجبور کردیں ، البتہ خدا کے نزدیک اسے پاکیزہ دماغ اور پاکیزہ نفس انسان نہیں کہا جا سکے گا اور ایسے انسان میں جس کے دل میں چوری کا کوئی خیال نہیں ، یقینا زیادہ فضیلت ہے ۔