وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ ۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ ۗ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے کو کوئی کاتب نہ مل سکے تو رہن با قبضہ [٤١٠] (پر معاملہ کرلو) اور اگر کوئی شخص دوسرے پر اعتماد کرے (اور رہن کا مطالبہ نہ کرے) تو جس پر اعتماد کیا گیا ہے اسے قرض خواہ کی امانت [٤١١] ادا کرنا چاہئے۔ اور اپنے پروردگار سے ڈرنا چاہیے۔ اور شہادت کو ہرگز نہ چھپاؤ۔ جو شخص شہادت کو چھپاتا ہے بلاشبہ اس کا دل گنہگار ہے [٤١٢] اور جو کام بھی تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے
(ف2) ان آیات میں رہن کی اجازت دی ہے ، اس لئے ناواقفی کے وقت اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ۔ البتہ یہ ہدایت کی ہے کہ اگر یونہی اعتبار پر کوئی شخص قرض دے دے تو مدیون کو چاہئے کہ اس کے حسن سلوک کا خیال رکھے اور اس کی پائی پائی چکا دے ۔ اس کے بعد عام ہدایت ہے کہ کتمان شہادت اسلام میں درست وجائز نہیں کیونکہ اس سے باہمی اعتماد اٹھ جاتا ہے ۔ حل لغات : آثِمٌ: مصدر اثم ، مجرم ۔ اثِمٌ: بمعنی گناہ ۔