سورة البقرة - آیت 280

وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اگر مقروض تنگ دست ہے تو اسے اس کی آسودہ حالی تک مہلت دینا چاہیے۔ اور اگر (راس المال بھی) چھوڑ ہی دو تو یہ تمہارے [٤٠٠] لیے بہت بہتر ہے۔ اگر تم یہ بات سمجھ سکو

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

رحم دل مسلمان : (ف ٢) اس سے پہلے کی آیت میں اصل مال لینے کی اجازت دی تھی اور فرمایا تھا کہ (آیت) ” لا تظلمون ولا تظلمون “ یعنی مسلمان نہ تو بحیثیت ظالم کے اللہ کو پسند ہے اور نہ بحیثیت مظلوم کے ، نہ تو وہ اپنا نقصان کرے ‘ نہ دوسرے کا ، یعنی جس طرح ظالم بننا اور سود لینا گناہ ہے ‘ بالکل اس کے متوازی سود دینا گناہ ہے ، کیونکہ مسلمان کو عادل اور ایک بہترین نمونہ بنا کر بھیجا گیا ہے ، اس کی زندگی کا مقصد دوسروں سے کہیں بلند ہے ، وہ اس لئے دنیا میں آیا ہے کہ خیر محض کا درس دے اور اپنے اعمال سے دوسروں کے لئے ایک ممتاز شاہراہ قائم کرے ، یہی وجہ ہے کہ اسے معاملات میں نہایت صالح رہنے کی تعلیم دی گئی ہے اور اسے کہا گیا ہے کہ حسن معاملہ بھی نصف دین ہے ، اس آیت میں فرمایا کہ اگر روس اموال واپس میں کرنے میں انہیں دقت ہو تو تم فراغت وکشائش تک انتظار کرو ۔ یعنی اسے موقع دو کہ وہ بآسانی قرض اتار دے ، مقروض کو تنگ کرنا مسلمان کے بلند اخلاق کے منافی ہے اور معاف کردینا تو بہت زیادہ بہتر ہے ، (آیت) ” ان کنتم تعلمون “۔ میں اشارہ ہے اس روحانی لذت کی طرف جو معاف کردینے کے بعد مسلمان کو حاصل ہوتی ہے اور اس اجر عظیم کی طرف جس کا وہ مستحق ہوجاتا ہے ۔ اس آیت میں جس رحم دل مگر سرمایہ دار مسلمان کا تخیل خدا نے پیش کیا ہے وہ دنیا کے لئے درجہ عافیت پسند اور مفید ہو سکتا ہے کیا ان ہدایات کے بعد بھی کسی دوسری تعلیم کی ضرورت باقی رہتی ہے ۔ حل لغات : رء وس اموالکم : اصل مال ۔ ذوعسرۃ : تنگ دست ۔ میسرۃ : فراغت ۔