سورة البقرة - آیت 276

يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کی پرورش [٣٩٥] کرتا ہے۔ اور اللہ کسی ناشکرے [٣٩٦] بدعمل انسان کو پسند نہیں کرتا۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

﴿يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا﴾ : (ف2) اس آیت اک ایک سیدھا سادا مفہوم تو یہ ہے ربا یا سود میں برکت نہیں ہوتی اور صدقات میں خدا اضافہ ونمو کی استعداد پیدا کردیتا ہے یعنی سود خوار کا مال بالآخر برباد ہوتا ہے ، اس کی نالائق اولاد کاہل اور عیاش ہوجاتی ہے ، جس سے مال ودولت جو محنت سے جمع کیا جاتا ہے ، سرعت سے برباد ہوجاتا ہے ، بخلاف مرد مومن کے جو اپنا منتہائے نظر بلند اور وسیع رکھتا ہے ، اس کے مال میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اس کی اولاد صالح ہوتی ہے ، وہ دیکھتی ہے ہمارا والد کس درجہ صالح تھا ، وہ اس کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہے ، اس لئے کہ ان کا باپ ان کے لئے ایک بہترین اسوہ حیات چھوڑ کر مرتا ہے ، وہ مال ودولت کے ڈھیر گو اولاد کو سونپ کر نہیں جاتا ، مگر اخلاق وسادات کا متاع گرانمایہ وہ ضرور اولاد کے ہاتھوں میں دے جاتا ہے جس سے وہ اپنی زندگی سنوار لیتے ہیں ، اس سے زیادہ برکت وسعادت اور کیا ہوسکتی ہے ؟ دوسرا مفہوم ذرا زیادہ دقیق ہے اور وہ یہ ہے کہ سود سے اصل سرمایہ میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور قوم کے لئے یہ خسران مبین کا باعث ہوتا ہے ، اقتصادیات کا یہ اصول ہے کہ دولت میں اس وقت اضافہ ہوتا ہے ، جب اسے زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے ، اور سود سے روپیہ بجائے پھیلنے کے چند ہاتھوں میں سمٹ کے رہ جاتا ہے ، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم کی تمدنی ترقی رک جاتی ہے ، بخلاف اس کے اگر تعاونی جذبات کی ترقی ہو ، روپیہ محدود ہاتھوں میں نہ رہے اور پھیلتا رہے تو قوم کے سرمایہ میں اضافہ ہوگا ۔ دیکھئے قرآن حکیم نے کس خوب صورتی سے سرمایہ کے مسئلہ کو آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے حل کردیا ہے ، ﴿فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ﴾ حل لغات : يَمْحَقُ: مٹاتا ۔ يُرْبِي: بڑھانا ۔