الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ۖ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ ۚ أُولَٰئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ ۖ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
خبیث عورتیں، خبیث مردوں کے لئے، اور خبیث مرد، خبیث عورتوں کے لئے ہیں۔ اور پاکیزہ [٣١] عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے ہیں۔ ان کا دامن ان باتوں سے پاک ہے جو وہ (تہمت لگانے والے) بکتے ہیں، ان کے لئے بخشش بھی ہے اور عزت کی روزی بھی۔
ازدواجی تعلقات کیلئے فریقین کو دیندار ہونا لازم ہے : (ف ١) قرآن حکیم کے نزدیک ازدواجی زندگی کیلئے سب سے زیادہ ضروری چیز جذبہ دینداری اور اخلاق کی پاکیزگی ہے حسن وجمال اور دوسری خصوصیات محض ثانوی حیثیت رکھتی ہیں ، کیونکہ جو تعلقات محض حسن وجمال یا مال ودولت کیوجہ سے قائم ہوں ، دیرپا اور مضبوط نہیں ہوتے ، ان کا تعلق عارضی ہوتا ہے جہاں امیری یا بےنیازی ہوئی فریقین ایک دوسرے سے الگ ہوگئے مگر جو تعلقات کہ اخلاق کی بلندی اور کیرکٹر کی اعلی بنیاد پر قائم ہوں اور روز بروز اور مستحکم ہوتے ہیں ، قرآن حکیم کہتا ہے جو لوگ صالح اور پاکباز ہیں وہ ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ انکی رفیقہ حیات بھی صالح ہو ، اور جو ناپاک اور گندے خیالات کا انسان ہوتا ہے وہ اپنے لئے اس عورت کو پسند کرتا ہے جو اس کے قماش اور مذاق کے عین مطابق ہوتی ہے ۔ الخبیثت اور الطیبت : کا مفہوم اس بات پر دال ہے کہ ازواج مطہرات ہبہمہ وجوہ الزامات سے پاک ہیں کیونکہ بدچلن عورتیں پاکباز مردوں کے پاس نہیں رہ سکتیں ، اسی طرح بااخلاق اور عفیف مرد فاحشہ عورتوں سے تعلق ازدواجی قائم نہیں کرسکتا ، قرآن نے اس آیت میں دراصل منافقین کو کوتاہی نظر اور بداخلاقی کی مذمت کی ہے ، کیونکہ منافقین کو چاہئے تھا کہ یہ تو دیکھتے کہ وہ کس ذات عصمت آب کے متعلق بیہودہ گوئی کا ارتکاب کر رہے ہیں ، واقعہ کے امکانات سے بحث کرتے اور سوچتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیونکر یہ گوارر کرسکتے تھے ، کہ اپنے حرم میں ایسی عورتوں کو جگہ دیں ، جو اخلاق کے لحاظ سے بلند نہ ہوں ۔