وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِي مَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اور اگر تم پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور اس کی زحمت [١٨] نہ ہوتی تو جن باتوں میں تم پڑگئے تھے اس کی پاداش میں تمہیں بہت بڑا عذاب آلیتا۔
عائشہ عفیفہ (رض) عنہا کا المناک واقعہ ! (ف ١) ام المومنین حضرت عائشہ عفیفہ (رض) عنہا کی زبان سے واقعہ افک کی تفصیل سنئیے ۔ ارشاد فرماتی ہیں کہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں ایک عزوہ میں شریک ہوئی ، یہ عزوہ بنی المصطلق سے قبل کا واقعہ ہے پھر ہم واپس آئے ، مدینہ سے کچھ ادھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک منزل پر قیام کیا ، میں بھی محمل سے نیچے اتری اور قضائے حاجت کے لئے جیش نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ آگے نکل گئی جب لوٹ کر محمل تک پہنچی تو مجھے معلوم ہوا کہ میرا ہار کہیں گر گیا ، تلاش کی غرض سے پھر وہاں تک گئی اور ہار ڈھونڈتی رہی محمل والوں نے یہ سمجھا کہ میں محمل میں موجود ہوں اس لئے کہ میرا بوجھ کچھ زیادہ نہ تھا میں ان دونوں بالکل نوعمر اور ہلکے جسم کی تھی محمل والوں نے محمل ناقہ پر رکھا ، اور چلتے بنے میں جس وقت منزل پر پہنچی تو قافلہ روانہ ہوچکا تھا ، اب میں نے سوچا اور خیال کیا کہ مدینہ پہنچ کر جب وہ معلوم کریں گے کہ محمل میں موجود نہیں ہوں تو قافلہ والوں میں سے کوئی ضرور مجھے تلاش کرنے آئے گا ، اس لئے وہیں پڑ کر سو گئی ، صفوان بن معطل نامی ایک شخص اس خدمت پر مامور تھا کہ قافلہ کے پیچھے پچھے آئے اور گری پڑی چیز کا خیال رکھے ، اس نے مجھے دیکھا کہ قافلہ سے بچھڑ گئی ہوں ، اس نے بچھڑنے کا سبب پوچھا میں نے بتا دیا اس نے کہا کہ آپ اونٹ پر سوار ہوجائیے ، یہ کہہ کر وہ خود پیچھے ہٹ گیا ، اور میں اونٹ پر سوار ہوگئی ، اس حالت میں ہم مدینہ پہنچے لیکن یہاں جھوٹ اور بہتان کا ایک طوفان بپا تھا ، منافقین میرے اور صفوان کے متعلق عجیب عجیب ناپاک الزام پھیل ارہے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وجہ سے بہت زیادہ مغموم تھے میں ان حالات سے ناواقف تھی ، رات کے وقت ام مسطح کے ساتھ باہر قضاء حاجت کیلئے نکلی ، اور جب واپس آنے لگیں تو ام مسطح کا پاؤں اس کی چادر میں الجھ گیا ، اس نے کہا قعس مسطح یعنی مسطح ہلاک ہو ، میں نے کہا مسطح بدری صحابی ہے ، کیا اس کو گالیاں دیتی ہے ، اس نے تعجب سے کہا تمہیں نہیں معلوم مسطح تمہارے متعلق کیا کیا باتیں لوگوں میں پھیلا رہا ہے میں نے کہا نہیں ، تو اس نے مجھے حقیت حال سے آگاہ کیا اب مجھے بھی روحانی تکلیف محسوس ہوئی میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لے کر اپنے والدین کے گھر آگئی ، یہاں یہ عالم تھا کہ والد بھی میری وجہ سے بےچین تھے ، والدہ بھی مضطرب تھیں اس لئے ہم تینوں ملکر خوب روئے ، ایک دن حضور تشریف لائے اور نہایت اندومگین لہجہ میں فرمایا : عائشہ ! میں تیرے متعلق اس قسم کی باتیں سنی ہیں ، اگر تو صداقت شعار ہے تو اللہ ضرور تیری برات کرے گا ، اور اگر خدانخواستہ تجھ سے غلطی ہوگئی تو توبہ کرو ، اللہ تعالیٰ توبہ کے بعد گناہوں کو معاف کردیتے ہیں ، میں نے جب یہ آخری کلمات سنے تو بےاختیار آنکھوں سے آنسو گرنے لگے ، والد سے کہا ، آپ میری طرف سے جواب دیجیے وہ کہنے لگے میں کیا جواب دوں ، والدہ سے کہا آپ میری ترجمانی کیجئے وہ بھی اول تو خاموش رہیں پھر کہنے لگیں کہ آخر کیا کہا جائے میں نے ذرا جرات کی اور کہا کہ جو باتیں آپ نے سنی ہیں وہ غالبا آپ کے دل میں مرتسم ہوچکی ہیں ، اور آپ شاید مان چکے ہیں اب اگر میں تردید بھی کروں تو آپ کب مانیں گے میری حالت تو اس وقت ابو یوسف یعنی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی طرح ہے اس لئے میں اس کے الفاظ میں کہتی ہوں (آیت) ” فصبر جمیل واللہ المستعان علی ما تصفون “۔ اللہ کی عنایت ونوازش دیکھئے کہ اسی مجلس اور اسی نشست میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اٹھارہ آیتیں نازل ہوئیں جن میں میری برات کی گئی منافقین کو ڈانٹا گیا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، عائشہ ! خوش ہوجاؤ اللہ تعالیٰ نے تمہاری برات کی آیتیں نازل فرمائی ہیں ، میں نے کہا اللہ کی حمد وستائش اور اس کا ہزار ہزار شکر ہے ، آپ اور آپ کے صحابہ تو مجھے مجرم سمجھ ہی چکے تھے والدہ نے کہا بیٹی اٹھو اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شکریہ ادا کرو ، میں نے کہا میں تو ہرگز نہیں اٹھوں گی میں تو اپنے مولا کا شکریہ ادا کروں گی جس نے میری برات فرمائی ہے اور ان تمام الزامات سے پاک اور بری کیا ہے ۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ واقعہ افک کو شہرت دینے والے منافقین ہیں ، مگر ان کی اغراض کی اس سے تکمیل نہیں ہوئی ، بلکہ انجام کے لحاظ سے یہ بہتر ہوا ، کیونکہ اس کی وجہ سے عورتوں کے حقوق اور ان کی عزت ووقعت سے متعلقہ مسائل کی توضیح ہوگئی ، فرمایا ، یہ قطعا جھوٹ تھا ، اور مسلمانوں کو چاہئے تھا ، کہ اول مرحلہ میں اس کا انکار کردیتے ، کیونکہ پیغمبر کی حرم محترم عفاف وعصمت کا سراپا مجسمہ ہوتی ہے ۔ ارشاد ہے کہ اس واقعہ کی صداقت کیلئے انہیں چار شاہد پیش کرنا چاہئے تھے اور اس کو پایہ ثبوت تک پہنچانا ضروری تھا ، مگر وہ تو بالکل جھوٹے تھے ، یہ اللہ کا بہت بڑا فضل ہے ، کہ اس نے تمہیں عذاب عظیمہ سے بچا لیا ورنہ پیغمبر کے حرم پاک کے متعلق الزامات سراسر ناقابل برداشت جرم ہے تم نے اس معاملہ کو بہت آسان سمجھا اور اس میں دلچسپی لی ، مگر اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑی معصیت ہے ، تمہیں لازم تھا کہ ہرگز اس واقعہ کو تسلیم نہ کرتے اور جب سنا تھا اسی وقت تردید کردیتے ، یاد رکھو آئندہ کبھی ایسے جرم کا ارتکاب نہ کرنا ۔